کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 294
والے ہیں جو کہ اپنی مراد کے اتصال کو مستلزم ہے یا یہ کہا جائے کہ وہ بالکل اصلاً ارادہ ہی کرنے والا نہیں خواہ یہ کہا جائے کہ وہ فلک کے لیے بشمول اس کی حرکت کے علت ہے یا وہ بغیر حرکت کے صرف فلک کے لیے علت ہے اور اسی طرح کاقول ہر اس شے میں ہے کہ جو اللہ کی ذات کے ساتھ قدیم فرض کر لی جائے اس لیے کہ یہ بات ضروری ہے کہ وہ حوادث میں سے کسی شے کے ساتھ مقارن ہو یا ممکن ہو اور دونوں تقدیروں پر یہ بات ممتنع ہے کہ وہ اللہ کی ذات کے ساتھ قدیم بنے اس لیے کہ قدیم تو صرف ایک ایسے موجب (بکسر الجیم)تام ذات سے حاصل ہو سکتا ہے جو اپنے موجب (بفتح الجیم ) کو مستلزم ہو اور ازل میں اس کا ثبوت اس امرکا تقاضا کرتا ہے کہ اس سے کوئی بھی شے حادث نہ ہو اور حوادث تو صرف اسی ذات صادر ہوتے پس وہ موجب ازلی نہیں الا یہ کہ اس سے کوئی شے حادث اور پیدا ہو جائے لیکن عالم کے فاعل کے بارے میں یہ امرممتنع ہے کہ اس سے کوئی بھی شے حادث نہ ہو لہٰذایہ بات بھی ممتنع ہوئی کہ وہ ازل میں موجب بالذات ہو ۔
اللہ تعالیٰ کے ارادے کے بارے میں مختلف اقوال:
جب یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ ایک ارادۂ ازلیہ کے ساتھ ارادہ کرنے والے ہیں جو اس مراد کے ساتھ مقارن اور متصل ہے جس کو عالم کہا جاتا ہے یا اپنی اُس مراد سے متاخر ہے جو حوادث ہیں ۔ تو یہ قول بھی ایسے ہی ہوا اس لیے کہ جب اس کے لیے صرف ارادۂ ازلیہ جو کہ مراد کے متصل ہے وہ ثابت ہے؛ تو یہ ممتنع ہوا کہ اس سے حوادث پیدا ہوں ۔لیکن یہ امرممتنع ہے کہ اس سے حوادث پیدا نہ ہوں ۔ پس یہ ممتنع ہوا کہ اس کے لیے صرف اور صرف ایک ارادہ ازلیہ ہو جو کہ مراد کے متصل ہو ساتھ اس کے کہ ایسے مفعولات کا ارادہ کرنا جو فاعل کے ساتھ لازم ہوں ، یہ غیر معقول امرہے بلکہ فاعل جواپنے ارادے کے ساتھ فاعل ہوتا ہے اس کے حق میں تو یہ امرمعقول ہے کہ وہ ایک شے کو دوسرے کے بعد وجود دے ،اسی وجہ سے کوئی بھی اس امرکا قائل نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی مشیت اور قدرت سے متکلم ہیں اور یہ کہ وہ کلام جو اس کا مقدورِ معین ہے وہ قدیم ہے اور اس کی ذات کیساتھ لازم ہے پس جب اس مقدور میں یہ امرمعقول نہیں جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے تو پھر ایسی چیز کے بارے میں کیسے یہ معقول ہوگا جو اس کی ذات سے مبائن اور منفصل ہے ۔
اگر کہا جائے کہ اس کے لیے ایساارادۂ ازلیہ ثابت ہے جو اس کی مراد کے مقارن ہے اور ایک دوسرا ارادہ بھی ثابت ہے جو حوادث کے ساتھ حادث ہے ؟
تو جواب میں کہا جائے گا کہ اگر اس ارادہ حادثہ کا وجود اُس رادہ ازلیہ کی وجہ سے ہے جس کا مراد کے ساتھ مقارنت اور اتصال ضروری ہے تو یہ امربھی ممتع ہے اس لیے کہ جب ارادۂ ثانیہ تو حادث ہے تو ممتنع ہے کہ وہ اس ارادہ قدیمہ کے مقارن ہو جو اپنی مراد کے متصل ہے اور اگر وہ اس ارادے کے بغیر ہو تو پھر حوادث کا حدوث بغیر