کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 293
احتیاج اور امکان کے ساتھ کیسے موصوف کیا جا سکتاہے اس لیے کہ یقیناً اگر اس پراحتیاج اور فقر کا حکم لگایا جائے اور ایک موجود غنی پر عدم کی قبولیت کا حکم لگایا جائے تو یہ اس کی ذات پرممتنع ہو گا جس طرح ماقبل میں گزرا جب کہ وہ عدم کو بالکل قبول ہی نہیں کرتا ۔ اگر فقر اور امکان کا حکم لگایا جائے اور ساتھ ساتھ وجود ذہنی کے اعتبار سے عدم کی قبولیت کا بھی حکم لگایا جائے اس معنی پر کہ وجود خارجی میں تو فاعل کی طرف محتاج ہے تو یہ ہمارے قول کے مغایر ہے یعنی یہ ضروری ہے کہ وہ معدوم ہو اور اس کے بعد وہ موجود بنے اور اگر یہ کہا جائے کہ اس کا فاعل فی نفسہ اس کا تصور کرتا ہے ساتھ اس کے فعل کے دوام کے اور ممکن تو وہی ہے جس کانفس میں تصور ہو سکتا ہے تو کہا جائے گا کہ نفس میں جس شے کا تصور ہوتا ہے وہ تو اس کی وجہ سے واجب ہے اور عدم کو قبول نہیں کرتا اور جو شے خارج میں ہے تو وہ خارج کی وجہ سے واجب ہے اور وہ عدم کو قبول نہیں کرتا پس وجود اور عدم دونوں کوقبول کرنے والا کہاں گیا ۔ اگر کہا جائے کہ نفس میں جس شے کا تصور ہوتا ہے وہ تو وجود اور عدم دونوں کو خارج میں بھی قبول کرتا ہے تو جواب میں کہا جائے گا کہ یہ امرممتنع ہے ساتھ اس کے کہ خارج میں اس کے لیے ایک ایسے وجود کو تسلیم کیا جائے جو واجب بھی ہو اور دائم بھی ہو بلکہ یہ تو اُن اشیاء میں معقول ہے جو کبھی معدوم ہوتے ہیں اور کبھی موجود ۔ پس جب یہ بات مسلم ہے کہ اللہ کے ماسوا تمام موجودات ممکن اور محتاج ہیں تویہ بھی لازم آیا کہ وہ کبھی موجود ہو اور کبھی معدوم ہوں اور یہ دلیل لوگوں کی فطرتوں میں جاگزین ہو چکی ہے پس ہر وہ شخص جو اشیاء میں کسی شے کا تصور کرتا ہے اس حال میں کہ وہ اللہ کی طرف محتاج اور فقر ہو اور وہ موجود بنفسہ نہ ہو بلکہ اس کا وجود اللہ کی وجہ سے ہو تو اسے اس بات کا تصور بھی آتا ہے کہ وہ مخلوق ہے اور موجود ہوا بعد اس کے کہ وہ معدو م تھا ۔ رہا یہ کہ یہ کہا جائے کہ وہ محتاج ہے وہ مصنوع ہے اور وہ دائم ہے اس کی ذات کے ساتھ اور وہ کسی عدم سے حادث نہیں ہوا تو یہ بات بھی معقول نہیں اور اس کا تصور تو صرف اور صرف ممتنعات جیسا ہو سکتا یعنی ذہن میں ایک ایسی بات فرض کر لی جائے جس کا خارج میں کوئی تحقق نہ ہو اس لیے کہ خارج میں تو اس کا تصور ممتنع ہے اور اس وجہ سے اگر یہ کہا جائے کہ مؤثر کی طرف تام بنانے والاوہ صفت امکان ہے اور صفتِ حدوث ہے تو ان دونوں قولین میں کوئی منافات نہیں رہے گا اس لے کہ ہر ممکن حادث ہے اور ہر حادث ممکن ہے پس یہ دونوں آپس میں متلازم ہے اسی وجہ سے تو دونوں قولوں کو اس شخص نے جمع کر دیا جس نے یہ کہا کہ مؤثر کی طرف محتاج بنانے والا امکان اور حدوث دونوں ہیں پس تینوں اقوال نفس الامر میں صحیح ہیں ،اختلاف تو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی اس امرکاگمان کرے کہ کوئی شے غیر حادث کے ہونے کے باجود ممکن بھی ہو سکتا ہے ۔ یہ تفصیل جو کہ عالم کے قدم کے امتناع کے بارے میں اور اس کی ذات کے علتِ قدیمہ ازلیہ ہونے کے امتناع کے بارے میں بیان کی گئی تو یہ بالکل صحیح ہے خواہ یہ کہا جائے کہ وہ ایک ارادہ ازلیہ کے ساتھ ارادہ کرنے