کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 292
اس کی توضیح یوں ہے یا تو یہ کہ یہ کہا جائے گا کہ خارج میں ہر شے کا وجود اس کی عینِ ماہیت ہے جس طرح کہ اہلِ سنت میں سے اُن اہلِ نظر کا یہ قول ہے جو یہ کہتے ہیں کہ معدوم خارج میں اصلاً کوئی شے ہی نہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ خارج میں موجودات کے لیے ماہیات ثابت نہیں ہیں سوائے اس کے کہ جو خارج میں موجود ہوں یعنی سوائے موجودِ خارجی کے پس یہ لوگ ان لوگوں کے مخالف ہیں جو اس بات کے قائل ہیں کہ معدوم بھی کوئی شے ہے ۔یہ معتزلہ اور دیگر کا قول ہے ۔ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ہر شے کا وجود جو کہ خارج میں ثابت ہے وہ اس کی ماہیت اور اس کی حقیقتِ ثابتہ فی الخارج کے مغایر ہوتی ہے جس طرح فلاسفہ میں سے بعض کا قول ہے یا یہ کہ یہ کہا جائے گا کہ خارج میں کسی شے کا وجود اس کی ماہیت کے پر زائد اور اس کے علاوہ ہے ۔ پس اگر پہلاقول اختیار کیا جائے پھر خارج میں عالم کے لیے کوئی ذات ثابت نہیں ہوگا سوائے اس کے وجودِ خارجی کے تاکہ یہ کہا جائے کہ وہ وجود اور عدم دونوں کو قبول کرتا ہے ۔ اگر دووسرا قول اختیار کیا جائے تو اگر یہ بات فرض کر لی جائے کہ وہ ازل سے موجود تھا تو پھر اس کی ذات کے لیے کوئی ایسا حال ثابت نہیں ہوگا جو وجود اور عدم دونوں کو قبول کرتا ہو بلکہ وہ تو ازل سے متصف بالوجود تھا پس کسی قائل کا یہ کہنا کہ ممکن ہی وہ شے ہے جو وجود اور عدم دونو ں کو قبول کرتا ہو اس کے ساتھ وہ اس کابھی قائل ہے کہ وہ ازل سے موجود ہے تو وہ دو منتاقضین کے درمیان جمع کرنے کا مرتکب ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے تو ممکن ہے تو تب بھی یہ قول تناقض پر مشتمل ہے خواہ وہ اس کی ذات سے وجودِ خارجی مراد لے یا کوئی ایسی شے مراد جو خارج میں وجو دقبول کرتی ہو اس لیے کہ جب وہ ازل ہی سے موجود ہے اور ا سکا وجود واجب ہے تو وہ اصلاً عدم کو قبول کرنے والا ہی نہیں اور اس کا عدم بالکل ممکن ہی نہیں رہا اور کسی قائل کا یہ کہنا کہ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے غیر موجود ہے اس کے ساتھ وہ اس کا بھی قائل ہے کہ وہ ازل سے بھی موجود ہے تو اس کا معنی یہ ہوا کہ اس کی ذات تو ازل سے موجود ہے ،واجب بالغیر ہے اور اس کا عدم ممتنع ہے اور وہ اپنی ذات کے اعتبار سے وجود اور عدم دونوں کو قبول کرتا ہے اور اسمیں یہ دونوں باتیں ممکن ہیں اور ممکن پر کلام کے مقام پراس امرکو پوری تفصیل کے ساتھ تفصیلاً بیان کیا گیا ہے جس طرح کہ انھوں نے بھی اس کو اپنی جگہ تفصیلاً بیان کیا ہے ۔ اس بات کی وضاحت یوں ہے کہ ممکن وہی شے ہوتی ہے جو کہ محتاج ہو اور وہ بذاتِ خود موجود نہ ہو بلکہ کوئی غیر ہی اس کو وجود دیتا ہو پس یہ ضروری ہے کہ وہاں کوئی ایسا شے ہو جس کو فقر یعنی احتیاج اور امکان کے ساتھ موصوف کیا جا سکے اس طرح عدم کی قبولیت کے ساتھ اور اس کے بعد پھر اس کو غنا یعنی بے نیازی اور وجود کے ساتھ موصوف کیا جاسکے ۔رہی وہ ذات جو ازل ہی سے موجود بھی ہے اور غنی یعنی بے نیاز بھی ہے تو اس کو فقر یعنی