کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 290
اور وہ کچھ بھی نہ تھا تاکہ وہ اس کے ذریعے اللہ کی اس کے مثل کے تخلیق پر قدرت اور استدلال کرے اوران اشیاء کے تخلیق کے قدرت پر جو اس سے زیادہ اھو ن اور آسان ہیں ۔ ۷) ساتواں یہ کہ بے شک یہ لوگ جو ایک علت قدیمہ سے قدمِ عالم کے قائل ہیں اس کے باوجود یہ اس کے بھی قائل ہیں کہ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے ممکن ہے اور اس کے لیے کوئی فی نفسہ وجود ثا بت نہیں اور اس کا وجود ایک مبدع(ازسر ون پیدا کرنے والا ) ذات کی طرف سے ہے پس انہوں نے اُس موجود کو جو ازل سے موجود تھا اور واجب بغیرہٖ تھا اس کو اس امرسے موصوف کیا کہ وہ ممکن الوجود ہے انہوں نے اس کے ذریعے اسلاف کے طریقے کی مخالفت کی اور اس طریقے کی مخالفت جس کے تمام کے تمام اولادِآدم قائل ہیں یعنی یہ کہ ممکن صرف اور صرف معدوم ہی ہوتا ہے اور جس چیز کا وجود وعدم دونوں ممکن ہوں وہ معدوم ہی ہوگا اور یہ ارسطو اور قدمائے فلاسفہ کا قول ہے لیکن ابن سینا اور اس کے متبعین اس کے مخالف ہیں اور ابن رشد اور اس کے علاوہ دیگر نے اس بات میں ان کا تعاقب کیا ہے اور انھوں نے فرمایا ہے کہ ممکن تو صرف وہی چیز ہو سکتی ہے جس کا وجود اور عدم دونوں ممکن ہوں پس یہ امر جائز ہے کہ وہ موجود ہو اور یہ بھی کہ وہ معدوم ہو یعنی وہ مستمر العدم ہو اس وجہ سے تو انہوں نے کہا کہ ممکن کے لیے کسی محل کا ہونا ضروری ہے جس طرح کہ یہ کہا کہ یہ امر ممکن ہے کہ عورت کو حمل ٹھہر جائے اور زمین کسی شے کو اگائے اور یہ بات کہ بچہ علم حاصل کرے یعنی سیکھے پس ان مثالوں میں امکان کامحل رحم ہے ،زمین ہے ،اور دل ہے لہٰذایہ ممکن ہے کہ ان تمام محلوں میں یعنی ان تمام مواقع میں وہی شے حادث (پیدا)ہو جائے جس کی ان میں قابلیت ہے یعنی کہ حرث ہے ،اسی طرح نسل ہے اور اسی طرح علم ہے ۔ رہا وہ شے جو ازل سے ہے اور ابد(مستقبل میں غیر متناہی حد)تک رہے گا خواہ بذاتِ خود ہو یا غیر کی وجہ سے ہو توکہ اس کے بارے میں کیسے یہ کہا جاتا ہے کہ اس کے حق وجود اور عدم دونوں ممکن ہیں اور اگر کہا جائے کہ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے دونوں امرین کو قبول نہیں کرتا یعنی وجود خارجی اس لیے کہ وجود جو واجب بغیرہی ہو وہ عدم کو قبول ہی نہیں کرتا الا یہ کہ وہ یہ مراد لیں کہ وہ وجود کے بعد عدم کو قبول کرتا ہے اور ایسی صورت میں تو وہ واجب بغیرہی نہیں رہے گا صفت دوام کے ساتھ پس جب بھی اس نے مستقبل میں عدم کو قبول کر لیا یا وہ معدوم تھا تو اب وہ صفت دوام کے ساتھ ازلی ،ابدی اور واجب بغیرہ نہ رہا جس طرح کہ یہ لوگ عالم کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر حالتِ واحدہ میں وجود اور عدم دونوں کو قبول کرنا مراد ہے تو یہ بات ممتنع ہے اور اگردو الگ الگ حالتوں میں ان کو قبول کرنا مراد ہے یعنی وہ کبھی تو وجود کو قبول کرتا ہے اور دوسری حالت میں وہ عدم کو قبول کرتا ہے تو یہ بات ممتنع ہے کہ وہ ازلی اور ابدی بنے بوجہ اس کے کہ اس پر وجود اور عدم متعاقب ہیں یعنی یہ دونوں حالتیں یکے بعد دیگرے اس پر آتے ہیں ۔