کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 289
کے کہ وہ موجود نہیں تھے ۔
رہا یہ کہ اگر کہا جائے کہ ازل سے وہ دونوں موجود تھے تو یہ قول باوجود یکہ ان کا مبتدع اور اپنی طرف سے نکالا ہوا قول ہے تو یہ جمع بین النقیضین بھی ہے یعنی مخلوق ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا ازلی ہونا تو یہ لوگوں کی اُن فطرتوں اور عقلوں میں جمع بین المتناقضین ہے جو اپنی اصل فطرت سے متغیر اور تبدیل نہیں ہوئے اسی وجہ سے تو پیغمبروں کا محض یہ خبر دینا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمینوں اور ان کے امثال کو پیدا کر دیا یہ ان کے حدوث کی خبر دینے کے طور پر کافی ہے اور اس کے ان کو اس بات کی ضرورت نہیں کہ وہ یہ کہیں کہ اللہ نے ان کو پیدا کیا عدم کے بعد بلکہ انہوں نے تو ان کے تخلیق کے زمانے کی خبر دے دی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ﴾( یونس :۳ )
’’ آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔‘‘
انسان جب کہ اس بات کو جانتا ہے کہ وہ پیدا کردیا گیا بعد اس کے کہ وہ معدوم تھا تو اس کے ذریعے اس کو یہ بات سمجھا دی گئی کہ وہ استدلال کرے اللہ تعالیٰ کی قدرت پر عدد کے تغییر پر اور اسی وجہ سے تو اللہ تعالیٰ نے یحیٰ علیہ السلام کی تخلیق کے بارے میں فرمایا :
﴿ یَا زَکَرِیَّا إِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ اسْمُہُ یَحْیَی لَمْ نَجْعَل لَّہُ مِن قَبْلُ سَمِیّاً(7) قَالَ رَبِّ أَنَّی یَکُونُ لِیْ غُلَامٌ وَکَانَتِ امْرَأَتِیْ عَاقِراً وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْکِبَرِ عِتِیّاً(8) قَالَ کَذَلِکَ قَالَ رَبُّکَ ہُوَ عَلَیَّ ہَیِّنٌ وَقَدْ خَلَقْتُکَ مِن قَبْلُ وَلَمْ تَکُ شَیْْئاً﴾(مریم:۷،۹)
’’اے زکریا! بے شک ہم تجھے ایک لڑکے کی خوش خبری دیتے ہیں ، جس کا نام یحییٰ ہے، اس سے پہلے ہم نے اس کا کوئی ہم نام نہیں بنایا۔کہا اے میرے رب! میرے لیے لڑکا کیسے ہوگا جب کہ میری بیوی شروع سے بانجھ ہے اور میں تو بڑھاپے کی آخری حد کو پہنچ گیا ہوں ۔کہا ایسے ہی ہے، تیرے رب نے فرمایا ہے یہ میرے لیے آسان ہے اور یقیناً میں نے تجھے اس سے پہلے پیدا کیا جب کہ تو کچھ بھی نہ تھا۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
﴿وَیَقُولُ الْإِنسَانُ أَئِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَیّاً(66) أَوَلَا یَذْکُرُ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاہُ مِن قَبْلُ وَلَمْ یَکُ شَیْْئاً﴾ (مریم:۶۶،۶۷)
’’اور انسان کہتا ہے کیا جب میں مرگیا تو کیا واقعی عنقریب مجھے زندہ کر کے نکالا جائے گا؟اور کیا انسان یاد نہیں کرتا کہ بے شک ہم نے ہی اسے اس سے پہلے پیدا کیا، جب کہ وہ کوئی چیز نہ تھا۔‘‘
پس انسان کو اللہ نے ایک ایسی بات کے ساتھ ذکر فرمایا ہے جس کو وہ جانتا ہے یعنی اس نے اس کو پیدا فرمایا