کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 288
پس بتحقیق انہوں نے اللہ کے لیے ایک بری مثال پیش کی ہے اور یہ انتہائی درجے کی باطل بات ہے اور ادلِہ الٰہیہ میں تو واجب یہ ہے کہ اس بات کو جانا جائے کہ ہر وہ کمال جو مخلوق کے لیے ثابت ہے تو خالق ذات اس کا زیادہ احق ہے اس لیے کہ مخلوق کا کمال خالق کے کمال سے ہی مستفاد ہے اور ان کی اصطلاح کے مطابق تو معلول کا کمال علت کے کمال سے مستفاد ہے اس لیے کہ واجب تعالیٰ ممکن کی بہ نسبت زیادہ اکمل ہے پس وہ ہر اُس کمال کے ساتھ ممکن سے زیادہ احق ہے جس میں کوئی نقص نہ ہو ۔ یہ بات بھی معلوم ہے کہ ہر وہ نقص جس سے مخلوق منزہ اور پاک ہو تو خالق اس نقص سے پاکی کے ساتھ زیادہ احق ہے اس لیے کہ نقص کمال کے مناقض اور ضد ہے پس جب وہ کمال کے ثبوت کے ساتھ زیادہ احق ہے تو وہ نقص کی نفی کے ساتھ بھی زیادہ احق ہوگا اور یہی قضیہ برہانیہ ہے جو کہ بالکل یقینی اور قطعی ہے اور وہ اس بات کو تسلیم بھی کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ فعل (احداث )صفتِ کمال ہے اور اہل کلام میں سے ان لوگوں پر رد کرتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ یہ صفتِ کمال نہیں اور نقص ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اَفَمَنْ یَّخْلُقُ کَمَنْ لَّا یَخْلُقُ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ﴾( نحل: ۱۷) ’’تو کیا وہ جو پیدا کرتا ہے، اس کی طرح ہے جو پیدا نہیں کرتا؟ پھر کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے۔‘‘ جب حال یہ ہے تو یہ بات عقلی ہے کہ وہ فاعل جو اپنی قدرت اور مشیت سے فعل کرتا ہے وہ اس کی بہ نسبت اکمل ہے جس کا کوئی قدرت اور اراد ہ نہیں ہوتا۔ اور فاعل قادرِ مختار جو کہ کسی شے کوآہستہ آہستہ وجود دیتا ہے۔ یہ اس کی بہ نسبت اکمل ہے جس کے ساتھ اس کا مفعول لازم ہوتا ہے۔ اور وہ کسی شے کے احداث پر قادر ہوتا ہے اور وہ کسی شے کے احداث پر قادر نہیں ہوتا اور نہ ایک حال سے دوسرے حال کی طرف تغییر پر، اس لیے کہ وہ ذات جو اس بات پر قادر ہو کہ وہ مفعولات ِ متعددہ کو پیدا کرے اور ان کو ایک حال سے دوسرے حال میں تبدیل کرنے پر قادر ہووہ اس ذات کی بہ نسبت زیادہ اکمل ہے جو ان صفات کے ساتھ متصف نہ ہو پس وہ کیسے واجب الوجود ذات کوفعلِ ناقص کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور انہوں نے جو بات ذکر کی ہے وہ ایک بالکل ممتنع بات ہے اور ایسے طریقے پر کوئی فاعل معقول نہیں جیسے انہوں نے ذکر کیا ہے بلکہ جس نے بھی اپنے اُس لازم کے لیے کسی شے کو فاعل فرض کیا ہے جو اس سے بالکل کسی بھی حال میں جدا نہیں ہوتا تو یہ لوگوں کے نزدیک صریح معقول کے مخالف ہے اور اس کو یہ کہا جائے گا کہ یہ اس کے لیے ایک صفت ہے یا اس کے ساتھ مشارکِ ہے اس کا مفعول نہیں ۔ اگر جمہورعقلاء جو فطرت سلیمہ رکھتے ہیں ان سے یہ کہا جائے کہ اللہ نے آسمانو ں اور زمینیوں کو پیدا فرمایا اور اس کے باوجود ازل سے اس کے ساتھ ہیں تو وہ جواب میں کہیں گے کہ یہ تو پھر اللہ تعالیٰ کا ان کی تخلیق کے منافی ہوا پس اللہ تعالیٰ کا ان کو پیدا کرنا معقول نہیں ہے مگر صرف اس صورت میں کہ وہ ان کو پیدا کرے بعد اس