کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 287
کے پیدا کرنے سے نہیں تھکا، وہ اس بات پر قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کر دے؟ کیوں نہیں ! یقیناً وہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔‘‘ اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ﴿ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلاً وَنَسِیَ خَلْقَہُ قَالَ مَنْ یُحْیِیْ الْعِظَامَ وَہِیَ رَمِیْمٌ (78) قُلْ یُحْیِیْہَا الَّذِیْ أَنشَأَہَا أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیْمٌ (79) الَّذِیْ جَعَلَ لَکُم مِّنَ الشَّجَرِ الْأَخْضَرِ نَاراً فَإِذَا أَنتُم مِّنْہُ تُوقِدُونَ(80) أَوَلَیْْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَی أَنْ یَخْلُقَ مِثْلَہُم بَلَی وَہُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِیْمُ ﴾ ( یس :۷۸۔۸۰) ’’اور اس نے ہمارے لیے ایک مثال بیان کی اور اپنی پیدائش کو بھول گیا، اس نے کہا کون ہڈیوں کو زندہ کرے گا، جب کہ وہ بوسیدہ ہوں گی؟ کہہ دے انھیں وہ زندہ کرے گا جس نے انھیں پہلی مرتبہ پیدا کیا اور وہ ہر طرح کا پیدا کرنا خوب جاننے والا ہے۔ وہ جس نے تمھارے لیے سبز درخت سے آگ پیدا کر دی، پھر یکایک تم اس سے آگ جلا لیتے ہو۔ اور کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پید اکیا اس پر قادر نہیں کہ ان جیسے اور پیدا کر دے؟ کیوں نہیں اور وہی سب کچھ پیدا کرنے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘ اس کے امثال دیگر وہ آیات جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مخلوق کو دوبارہ پیدا کرنا اس کے پیدا کرنے کی بہ نسبت اولیٰ بالامکان ہے اور صغیر کو پیدا کرنا بڑی جسامت کے پیدا کرنے کی بہ نسبت اولیٰ بالامکان ہے اور رہا وہ شے جس کے بارے میں یہ بات معلوم نہ ہو کہ وہ ممکن ہے تو جب اسے عقل پر پیش کیا جائے اور اس کی امتناع معلوم نہ ہو تو اس کا صرف امکانِ ذہنی ہوتا ہے اس معنی پر کہ امتناع کا علم نہیں ا ور اس کا امکان خارجی نہیں ہوتا خارج میں علم بالامکان کے معنی پر ،اسی وجہ سے تو اہل نظر میں سے ایک گروہ اس بات کو ذکر کرتی ہے جیسے علامہ آمدی اور اس کے علاوہ دیگر یعنی کہ جب وہ اس بات کا ارادہ کرے کہ کسی شے کے امکان کو اس طور پر پکا کر دے کہ جب اس کے وجود کو فرض کر لیا جائے تو اس سے محال لازم نہ آئے ،یہ ایک محض دعویٰ ہے اور اس کی منتہیٰ(آخری حد) اس پر ہے کہ وہ یہ کہیں کہ ہم اس بات کو نہیں جانتے کہ اس سے محال لازم آتا ہے اور عدمِ علم تو علم بالعدم نہیں اور یہ جب ان لوگوں نے اس بات کا ارادہ کیا کہ وہ مفعول کا اپنے فاعل کے ساتھ لزوم کے امکان کو ثابت کریں تو ضروری ہے کہ وہ اس بات کو جان لیں کہ وہ خارج اس شے کا ثبوت ہے جو اس کی بہ نسبت اولیٰ بالامکان ہے اور یہ دونوں باتیں منتفی ہیں پس صرف اور صرف وہی فاعل معلوم اور موجود قرار پائے گا جو اپنے فعل یا مفعول کو وجود دے اور جس کا مفعول معین اس کے ساتھ مقارن اور لازم نہیں ہوتا بلکہ یہ تو فاعل قادر ہونے کی بہ نسبت اس کے فاعلیت کی نفی اور لازم کی نفی سے عجز کی طرف زیادہ اقرب ہے۔