کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 285
حدوثِ عالم پر ایسے نقلی دلائل جن میں کوئی تاویل ممکن نہیں : کئی وجوہ سے ان کی کوئی بھی تاویل ممکن نہیں ہے؛ ان میں سے : پہلی وجہ :.... ایک یہ کہ ان کی مراد اضطراری اور بدیہی طریقے پر معلوم ہے پس اس میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں اگر ہو گی بھی توصرف مرسلین کی تکذیب کی صورت میں ہوگی۔ دوسری وجہ :.... اہل ملل کے سلف و خلف کے درمیان یہ امرظاہراً اور باطناً متفق علیہ ہے۔ پس یہ ممتنع ہے کہ رسول اس کے خلاف کوئی بات دل میں پوشیدہ رکھنے والے ہوں ؛ جس طرح کہ باطنیہ فرقہ میں سے بعض نے اس قول کو اختیار کیا ہے بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں ۔ تیسری وجہ :.... ایسی کوئی عقلی دلیل نہیں جو اس کے منافی ہو؛ بلکہ معقولات میں وہ تمام ادلہ جو اس کے منافی ہیں وہ سب کی سب فاسد ہیں اور ان کا فساد صریح عقلی دلائل سے معلوم ہے ۔ چوتھی وجہ :.... عقلی دلائل میں سے کچھ اس کی تصدیق کرتے ہیں ۔ پھر ان میں سے ہر ایک اس باب میں اس راستے پرچلا ہے جو اسے عقلیات میں سے آسان نظر آیا ۔ پانچویں وجہ :.... انسان کی فطرت اور بداہت سے یہ امرمعلوم ہے کہ حوادث کے لیے کسی محدث (پیدا کرنے والا )کا ہونا ضروری ہے اور مصنوعات کے لیے کسی صانع اور فاعل کا ہونا ضروری ہے۔ اور یہ کہ مفعول کی اپنے فاعل کے ساتھ مقارنت ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی۔ یہ امرعقول کی فطرت میں ممتنع ہے۔ اوریہ وہ دلائل ہیں جن سے یہ اپنے مخالفین پراستدلال کرتے ہیں ۔یہ مسئلہ اپنے مقام پرتفصیلاً بیان ہوچکا ہے۔ اس لیے کہ جب ان کے سامنے ان کے بھائیوں کے قول کا فساد بیان کیا جائے؛ اور ان پر یہ واضح ہو جائے کہ فاعل کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کے ساتھ ایسے احوال قائم ہوں جن کی بنیاد پر وہ فاعل بنتا ہے تو (اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے )یہ ممتنع ہے کہ اس کا مفعولِ معین اس کے ساتھ مقارن ہو ازلاً و ابداً اس لیے کہ یہ تو اس کو مفعولیت سے نکالنے کے مترادف ہوا ۔ چھٹی وجہ :.... ان دونوں فریقین سے یہ کہا جائے گا کہ جس بات پر تم قائم ہو اس کی بنیاد کیا ہے ؟وجود کی طرف رجوع کرنا ہے؟ اور فلسفہ تو اس کے موجودہ حال پر وجود کی معرفت ہے۔حقیقی فلسفہ میں تو امورِ وجودیہ ہیں جن کی وجہ سے وجود کو پہچانا جاتا ہے۔ اور تم تو اکثر و بیشتر قیاس کے بغیر کسی شے کو نہیں ثابت کرتے؛ خواہ وہ قیاسی شمولی ہو یا عام ہو یا تمثیلی ہو۔ کیا تمہارے علم میں کوئی ایسافاعل ہے جس کا مفعول وقت میں اس کے ساتھ لازم یا مقارن ہو اور وہ دھیرے دھیرے حادث نہ ہوتا ہو خواہ وہ فاعل بالارادہ ہو یا بالتبع۔ کیا تم نے کسی ایسے فاعل کو پایا ہے جو ازل سے اپنے مفعول کے لئے موجب ہواور ابد تک ہو ؟اور ازل