کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 284
زیادہ اعلم ہیں اور ان امور پر جو نفوس اور انسانوں کو سعید اور شقی (نیک بخت اور بدبخت )بناتے ہیں اور ان کو یہ بات بتلاتے ہیں کہ جس نے رسولوں کی اتباع کی وہ آخرت میں سعید اور نیک بخت ہے اور جس نے ان کی تکذیب کی اور ان کو جھٹلایا وہ آخرت میں شقی اور بد بخت ہے۔نیز بھی کہ اگر انسان طبیعات اور ریاضیات کو جان لے تو قریب نہیں کہ وہ پیغمبروں کے دین سے نکل جائے یعنی کہ وہ (یعنی یہ علوم )اس کو پیغمبروں کے دین سے نکلنے پر آمادنہ نہیں کرے گابلکہ پیغمبروں کے ا دیان تو اس کے موافق ہیں اور یقیناً اس بات کو بھی کہ جس نے اپنی طاقت اور اپنی وسعت کے بقدراللہ اور رسول کی اطاعت کی وہ آخرت میں سعید اور نیک بخت ہوگا اگرچہ طبعیات اور ریاضیات میں سے اس نے کسی شے کو بھی جانا نہ ہو اور اس کی معرفت حاصل نہ کی ہو۔
لیکن ان کے سلف نے ریاضیات اور طعیات میں کثر ت سے کلام کیا کیوں کہ ان کے ہاں تو پیغمبروں کے وہ آثار اور وہ منقولی علوم نہیں تھے جن کے ذریعے وہ اللہ کی توحید کی طرف راستہ پائیں ۔ اور اس کی عبادت کی طرف اور وہ امور جان لیں جو آخرت میں ان کے لیے نافع ہیں اور ان کے سحر اور شیطانی افعال کے سبب ،شرک نے ان کے اوپر تسلط جمایا ہوا تھا اور کواکب کے ترصد اور ان کے حسابات معلوم کرنے میں انہوں نے اپنی عمریں صرف کر دی تھیں تاکہ وہ سحر اور شرک سے مدد حاصل کریں اور یہی حال امورِ طبعیہ کا ہے اور ان کی عقل کی منتہیٰ چند ایسے امور عقلیہ ہیں جو کلی ہیں جیسے کہ وجودِ مطلق کا علم اوروجود کا علت و معلول اور جوہر و عرض کا طرف انقسام کا علم اور جواہر کی تقسیم اور پھر اعراض کی تقسیم اور یہی ان کے ہاں حکمتِ اوّلی اور فلفسہ اولیٰ ہے اور اس کی منتہیٰ(آخری حد) اس وجودِ مطلق کا علم ہے جس کا وجودِ ذہنی کے سوا کوئی وجود ہی نہیں ۔
اسی سبب سے کچھ لوگ ان کی مسلک میں داخل ہو گئے یعنی وہ متصوفہ جو فلاسفہ تھے جیسے ابن عربی اور ابن سبعین اور تلمسانی اور ان کے امثال پس ان کے معرفت کی منتہیٰ وجودِ مطلق تھی ۔اور ان میں سے بعضو ں نے تو یہ گمان کیا کہ یہی وجودِ واجب ہے اور اس بات میں وہ گمراہی پائی جاتی ہے ۔دوسری جگہ پر یہ مسئلہ تفصیل سے بیان کردیا گیا ہے۔
اس مسلک پر بہت سے مسلمان اور یہود و نصاریٰ اور ان کے علاوہ دیگر اہل ملل گامزن رہے ہیں ۔اور انہوں نے اس قول کے فساد کو بیان کیا جس پر عالم کے قدم کے قائلین چلے ہیں اور انہوں نے وہ نقلی دلائل ایک ایک کر کے ذکر کر دئیے جو ارسطواور اس کے دیگر امثال سے منقول تھے اور اس کے فساد کو بیان کیا پھر انہوں نے کہا کہ ہم اس مسئلہ کو نقل سے لیتے ہیں پس پیغمبروں نے تو ایسے امور کی خبر دی ہے جن کے نقیض پر کوئی دلیل عقلی قائم نہیں ہوتی لہٰذا اس کی تصدیق واجب ہے۔