کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 283
رہا ان کا مادے کے بارے میں قول کہ وہ قدیم الاعیان ہیں ،حادث ہیں بعد اس کے کہ معدوم تھے یا وہ حادث ہیں کسی اور مادے سے ایک دوسرے مادے کے بعد تو اس باب میں ان سے منقول اقوال مضطرب ہیں اور اللہ تعالیٰ کو تو ان لوگوں میں سے ہر ایک کے قول کی حقیقت کا زیادہ علم ہے اس لیے کہ یہ تو ایک ایسی جماعت ہے کہ جن کی اصل کتابوں کو ایک زبان سے دوسری زبان میں تبدیل کر دیا گیاہے اور ایسی حالت میں بسا اوقات ایسا جھوٹ اور غلطیان پیدا ہوجاتی ہیں جن کی حقیقت کا کچھ پتہ نہیں چلتا یعنی یہ نہیں معلوم ہوتا کہ کتنا اس میں تحریف کیا گیا ہے اور کتنا اس میں صحیح بلفظہ ترجمہ کیا گیا ہے لیکن ان سے جو نقول اور عبارات تواتر کے سااتھ منقول ہیں وہ مثل متواتر کے ہیں اور ان میں سے ہرطائفہ کے قول کے جاننے سے ہمارا کوئی خاص غرض وابستہ نہیں بلکہ ہم تو ان کے بارے میں یہی کہہ کر بات ختم کرتے ہیں : ﴿ تِلْکَ أُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ لَہَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُم مَّا کَسَبْتُمْ وَلاَ تُسْأَلُونَ عَمَّا کَانُوا یَعْمَلُونَ ﴾ ( البقرہ ۱۳۴) ’’یہ ایک امت تھی جو گزر چکی، اس کے لیے وہ ہے جو اس نے کمایا اور تمھارے لیے وہ جو تم نے کمایا اور تم سے اس کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘ ارسطواور اس کے پیروکاروں کی گمراہی اور شرک لیکن وہ بات جس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ یہ کہ اس قسم کی تعلیمات کے اصحاب جیسے ارسطواور اس کے متبعین مشرکین تھے اور مخلوقات کی عبادت کرتے تھے اور وہ نبوتوں اور معاد بدنی (جسمانی طور پر قیامت میں اٹھا یا جانا )کو بالکل نہیں مانتے تھے اور یہ کہ یقیناً یہود و نصاریٰ و الٰہیات اور نبوت اور معاد اور بعث بعد الموت کے مسئلے میں ان سے بدرجہا بہتر تھے اور جب یہ بات معلوم ہو گئی کہ ان کا فلسفہ اُن پر اس بات کو لازم کرتا ہے کہ وہ عالم میں سے کسی شے معین کے قدم کے قائل نہ ہوں تو یہ بات معلوم ہو گئی کہ وہ صریحِ معقول کے بھی خلاف ہیں جس طرح وہ صریح منقول کے خلاف ہیں اور یہ کہ وہ قواعدِ صریحہ میں تحریف کرنے میں یہود و نصاریٰ کے مشابہ ہیں جیسے انہوں نے پیغمبروں کی لائی ہوئی تعلیمات میں تحریف کردی یہی تو اس باب میں مقصود ہے ۔ پھر اگر یہ بات فرض کر لی جائے کہ ان کے ہاں معقول میں سے کوئی ایسی شے نہیں جس کے ذریعے وہ احد الطرفین کو پہچان لیں پس اس معاملے میں آسمان و زمین کی تخلیق کے بارے میں اور حدوث عالم کے بارے میں ان کے باتفاق پیغمبروں کا خبر دینا ہی کافی ہے اور فلسفہ صحیحہ تو معقولات محضہ پر مبنی ہے جو ان پران امور میں پیغمبروں کی تصدیق کو واجب کرتا ہے جس کی پیغمبروں نے ان کو خبر دی ہے اور ان کے لیے اس بات کو واضح کرتا ہے کہ انہوں نے اس کو ایک ایسے طریقے سے جانا ہے جس سے وہ عاجز ہیں اور یقیناً وہ امور ِ الٰہیہ اور معاد پر