کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 282
اور صحیح میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے :
(( خطبنارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبۃ فذکر بدء الخلق حتی دخل اہل الجنۃ منازلہم ودخل اہل النار منازلہم ۔))[1]
’’ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لمبا خطبہ دیا جس میں آپ نے ابتدائے تخلیق کا ذکر کیا۔ یہاں تک لمبا خطبہ دیا اہل جنت کا اپنے جنت میں دخول کا ذکر فرمایا اور اہل نار کا نار کا جہنم کے اندر دخول کا ذکر فرمایا۔‘‘
اسی طرح تورات میں بھی اس باب میں قرآن کی خبر کے موافق باتیں ہے اور یہ بات کہ زمین پانی کے ساتھ معمور تھی اور ہوا پانی کے اوپر ہوا چلتی تھی اور یہ بات کہ اولِ امر میں اللہ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدافرمایا او ریہ کہ اللہ نے اس کو ایام میں پیدا فرمایا ہے اسی وجہ سے علمائے اہل کتاب میں سے وہ بھی ہیں جو اس بات کے قائل ہیں جس کو اللہ نے تورات میں ذکر کیا ہے اور وہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اس نے اس عالم کو ایک اور مادے سے پیدا فرمایا ہے ۔
یہ کہ اس نے اس کو ایک ایسے زمانے میں پیدا فرمایا ہے جو کہ شمس و قمر کی پیدائش کے زمانے سے پہلے تھا اور اللہ تعالیٰ نے قرآن اور اس کے علاوہ دیگر کتابوں میں آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق سے متعلق جو باتیں ذکر فرمائیں اس میں یہ مذکور نہیں ہے کہ اس نے آسمانوں اور زمنیوں کو بغیر کسی مادے کے پیدا فرمایا اور یہ بھی نہیں کہ اللہ نے انسانوں اور ملائکہ کو ایک مادے سے پیدا فرمایا بلکہ اللہ تعالیٰ خبر دیتے ہیں کہ ان کو ایک مادے سے پیدا فرمایا اگرچہ وہ مادہ ایک اور مادے سے مخلوق تھا جیسے کہ انسان کو آدم سے پیدا فرمایا اور آدم کو مٹی کے گارے اور صحیح مسلم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا :
((خلقت الملائکۃ من نور وخلقت الجان من مارج من نار وخلق آدمم مماوصف لکم۔)) [2]
’’میں نے ملائکہ کو نور سے پیدا فرمایا؛ اور جنات کو آگ کے شرارے سے اور آدم کو اس چیز سے پیدا فرمایا ہے جو تمہارے سامنے بیان کر دیا گیا ہے۔‘‘
یہاں تو مقصود یہ ہے کہ فلاسفہ قدماء کے آئمہ سے جو بات منقول ہے وہ اُن باتوں کے مخالف نہیں جو انبیاء کرام نے بیان کر دی ہیں یعنی اس عالم کوکسی مادے سے پیدا فرمانا بلکہ ان سے جو منقول ہے وہ یہ ہے کہ یہ عالم تو حادث ہے اورعدم کے بعد موجود ہوا ۔
[1] البخاری 4؍106کتاب بدئِ الخلقِ، الباب الأول
[2] مسلِم 4؍2294کِتاب الزہدِ والرقائِقِ،؛ المسند 6؍153، 168.]