کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 281
’’ اللہ تعالیٰ تو اس سے پہلے کوئی شے نہیں تھی اور اس کا عرش پانی پر متمکن تھا اور اس نے جو لوح محفوظ میں ہر شے کو لکھ دیا اور آسمانوں اور زمینوں کو پیدا فرما دیا۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ پھر آسمانوں اور زمینوں کو پیدا فرما دیا ۔
صحابہ اور تابعین سے ایسے آثار تواتر سے منقول ہیں جو قرآن و سنت کے موافق ہیں یعنی اس بات میں کہ اللہ نے آسمانوں کوایک ایسے پانی کے بخار ات سے پیدا کیا ہے جس کو اللہ نے ’’دخان ‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے اور صحابہ تابعین اور ان کے ما بعد میں سے علماء مسلمین نے ان مخلوقات کے اول میں کلام کیا ہے کہ وہ اول شے کیا تھی ؟ اس میں ان کے دو قول تھے؛ جن کو حافظ ابو الاعلا ھمدانی اور ان کے علاوہ دیگر نے نقل کیا ہے :
ایک عرش ہے ،دوسرا قلم ہے۔
انہوں نے قولِ اول کو ترجیح کی ہے۔کیونکہ قرآن و سنت میں اس کی دلیل موجود ہے۔کہ اللہ نے جب تمام مخلوقات کے مقادیر کو اس قلم سے لکھا؛ جس کو اس نے حکم دیا تھا کہ وہ لوح میں لکھے؛ اور اس کا عرش پانی پر متمکن تھا ؛ توعرش کو قلم سے پہلے پیدا کیا گیا تھا۔ اور انہوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس معاملہ میں جو آثار منقول ہیں کہ اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا ۔ اس کا معنی یہ ہے کہ اس عالم میں سے اور بالتحقیق اس بات کی خبر دی ہے کہ اس نے اس کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا۔ پس جس وقت نے اللہ تعالیٰ نے اس کو پیدا فرمایا وہ ایک زمان تھا ۔ جس کے ذریعے اس کا اندازہ اور اس کی مقدار معلوم ہو سکتی ہے۔ اور اس نے اس کو اس حال میں پیدا فرمایا کہ وہ ۔ ایام کی طرف الگ الگ وجو د میں آرہا تھا پس معلوم ہوا کہ شمس اور قمر کی پیدائش سے پہلے زمانہ بھی موجود تھا اور اس عالم میں اللہ نے لیل و نہار کو پہلے سے پیدا فرمایا تھا۔ اور صحیحین میں روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ انہوں نے حج الوداع کے خطبہ میں یہ ارشاد فرمایا :
(( إن الزَّمَانُ قَدْ اسْتَدَارَ کَہَیْئَتِہِ یَوْمَ خَلَقَ اللَّہُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ، السَّنَۃُ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا، مِنْہَا أَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ، ثَلاَثَۃٌ مُتَوَالِیَاتٌ: ذُو القَعْدَۃِ وَذُو الحِجَّۃِ وَالمُحَرَّمُ، وَرَجَبُ مُضَرَ، الَّذِی بَیْنَ جُمَادَی وَشَعْبَانَ ۔))[1]
’’بالتحقیق زمانہ وہ واپس مڑ کر آگیا ہے اپنی اس ہیئت کی طرف جو اللہ نے اس کی پیدا فرمائی تھی آسمانوں اور تخلیق کے دن اور سال بارہ مہینے ہیں جن میں سے چار اشہرحرم ہیں :ذو القعدہ،ذی الحجۃ ،محرم اور وہ رجب جو شعبان اور رمضان کے درمیان ہے۔‘‘
[1] البخارِیِ9؍133 ِ؛ کتاب التوحِیدِ، باب قولِ اللّٰہِ تعالی: ﴿وجوہ یومئِذ ناضِرۃ﴾ 4؍107؛ کتاب بدئِ الخلقِ، باب ما جا فِی سبعِ أرضِین؛ وأول الحدِیثِ فِیہِ:الزمان قدِ استدار....؛ مسلِم 3؍1305 ۔ 1306 ِکتاب القسامۃِ، باب تغلِیظِ تحرِیمِ الدِمائِ....؛ سننِ بِی داود 2؍265 کتاب المناسکِِ، باب الشہرِ الحرمِ۔