کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 280
صورت کے اعتبار سے یا اپنی مادہ اور صورت دونوں کے اعتبار سے ،اور اکثر تو اس کے قائل تھے کہ اس کا مادہ اس کی صورت پر متقدم ہے۔ اس عقیدہ کی کتاب و سنت سے موافقت : یہ بات اس بات کے موافق ہے جس کی پیغمبروں نے خبر دی ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی خبر دی ہے کہ اس نے آسمانوں اور زمینوں کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا۔ اس حال میں کہ اس کا عرش پانی پر متمکن تھا : ﴿ وَہُوَ الَّذِیْ خَلَق السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ أَیَّامٍ وَکَانَ عَرْشُہُ عَلَی الْمَائِ﴾ (ھود ۷) ’’اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا۔‘‘ اور اس بات کی خبر دی ہے: ﴿ ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاء وَہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَلِلْأَرْضِ اِئْتِیَا طَوْعاً أَوْ کَرْہاً قَالَتَا أَتَیْْنَا طَائِعِیْنَ ﴾(حم فصلت۱۱) ’’پھر وہ آسمان پر مستوی ہو ا اور وہ ایک دھواں تھا تو اس نے اس سے اور زمین سے کہاکہ آؤ خوشی سے یا ناخوشی سے۔ دونوں نے کہا ہم خوشی سے آگئے‘‘ ۔ اور صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عمر بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت مبنی ہے کہ: (( کَتَبَ اللہُ مَقَادِیرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ یَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِینَ أَلْفَ سَنَۃٍ، قَالَ: وَعَرْشُہُ عَلَی الْمَائِ۔)) [1] ’’اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کی مقادیر اور ان کا قدر اور ان کا اندازہ آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرنے سے پہلے پچاس ہزار سال پہلے کر لیا تھا اور اس حال میں کہ اس کا عرش پانی پر تھا۔‘‘ صحیح بخاری اور دیگر کتب میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے؛ فرمایا : (( کان اللہ ولم یکن شئی قبلہ وکان عرشہ علی الماء وکتب فی الذکر کل شئی وخلق السماوات والارض۔))[2]
[1] مسلِم 4؍44؛ کتاب القدرِ، باب حِجاجِ آدم وموس علیہِما السلام ؛ سنن التِرمِذِی ط. المدِینۃ ِ المنور3؍311 ؛ کتاب القدرِ، باب ما جا فِی الرِضاء بِالقضائِ . [2] البخاری 9؍124؛ کتاب التوحِیدِ، باب وکان عرشہ علی المائِ ....،4؍105 ؛ کتاب بدئِ الخلقِ، باب ما جاء فِی قولِ اللّٰہِ تعال وہو الذِی یبدء الخلق ثم یعِیدہ ؛ سننِ التِرمِذِیِ[مختصر] 5؍389 کِتاب المناقِبِ، باب فِی مناقِبِ ثقِیف وبنِی حنِیفۃ۔