کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 279
جاتی اور ان کے بڑے ادلہ تو ایسے امورِ مجملہ ہیں جوکہ عام انواع پر دلالت کرتے ہیں وہ عالم میں سے کسی شے معین کے قدم پر دلالت نہیں کرتے پس جس بات کی رسولوں نے خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو پیدا کیا ہے جیسے کہ پیغمبروں نے اس بات کی خبر دی ہے کہ اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اور ان کے درمیان (مخلوقات )کو چھ ایام میں تو لوگوں میں سے کسی شخص کو بھی یہ قدرت حاصل نہیں کہ وہ اس بات کی نفی پر کوئی صحیح دلیلِ عقلی قائم کر ے ۔ رہا وہ کلام جس سے متکلمین اِن پر اور اِن کے علاوہ دوسروں پررد کرنے کیلئے استدلال کرتے ہیں تو اس میں سے کچھ درست اور کچھ غلط ہے ،اس میں سے کچھ وہ ہے جو شرع اور عقل کے موافق ہے اور کچھ وہ ہے جو ان کے مخالف ہیں اور ہر حال میں وہ نظر و مناظرہ اور امورِ کلیہ میں فکر اور نظر کے اعتبار سے زیادہ حاذق ہیں اور ان معقولات کا زیادہ علم رکھتے ہیں جو الٰہیات سے متعلق ہیں اور ان کا قول ان فلاسفہ کی بہ نسبت زیادہ درست ہے اور طبعیات اور ریاضیات میں کلام کرنے والے ان لوگوں کی بہ نسبت زیادہ حاذق ہیں جنہوں نے ان (طبیعیات اور رضاضیات )اُن کی طرح کو نہیں پہچانا ساتھ اس خطاء کے جو اس میں پائی جاتی ہیں ۔ یہاں تو مقصود یہ ہے کہ ان کے آئمہ اور ان حازقین سے جن کے عقول اور ان کے معارف ،الٰہیات کے مسئلے میں ارسطواور ان کے اتباع کے کلام سے بھی اونچے ہیں اور ابن سینا اور ان کے امثال کے کلام سے بھی تو سب سے پہلے آپ یہ بتائیں کہ عالم میں سے کسی شے کے قدم کا قول اختیار کرنے کے لیے موجب کیا بنا ؟اور تمہارے ہاں تو اس میں سے کسی شے معین کے قدم کی کوئی دلیل ہی نہیں اور تمہارے ہاں تو فلسفہ کی بنیاد تو انصاف پرمبنی ہے اور علم کے اتباع اور پیروی پر مبنی ہے اور فلسفی تو وہی شخص ہوتا ہے جو حکمت کو پسند کرنے والا ہوتا ہے اور فلسفہ تو حکمت کی محبت کا نام ہے اور تم نے جب اُن لوگوں کے کلام میں غور وخوض کیا جنہوں نے اس باب میں کلام کیا ہے اور اس میں کوئی ایسی بات نہیں پائی جو عالم میں کسی شے معین کے قدم پر دلالت کرتی ہو باوجود یہ کہ تمہیں اس بات کا علم ہے کہ تمام جماعتوں کے جمہور علماء اس امرپر متفق ہیں کہ اللہ کے ماسوا سب کچھ مخلوق ہیں اور وہ عدم کے بعدموجود ہوئے اور یہی تو پیغمبروں اور مسلمانوں میں سے ان کے پیروکاروں اور یہود و نصاریٰ کا قول ہے۔ اکثر فلاسفہ کا قول:عالم کا مادہ اس کی صورت پر متقدم ہے: حدوثِ عالم کا یہ قول فلاسفہ کے اُن آئمہ کا قول ہے جو ارسطوسے پہلے گزرے ہیں بلکہ وہ تو اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ ارسطوہی وہ پہلا شخص ہے جس نے قدمِ افلاک کا قول اختیار کیا ہے اور یہ کہ اس سے پہلے جو فلاسفہ کے آئمہ متقدمین گزرے ہیں وہ تو یہ کہتے تھے کہ عالم محدث (عدم کے بعد وجود میں آنے والا )ہے یا تو فقط اپنی