کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 278
موافقت کی ہے اور بسبب اس کلام کے جو اس امام غزالی کی کتاب میں پایا جاتا ہے اور جو ان کے اصول کے موافق ہیں اور ان جیسے لوگوں کے بارے میں اس جیسا شعر کہنا مناسب ہے: یومان یمان اذا ماجئت ذایمن وان لقیت معدیا فعدنانی اس نسبت سے تو انہوں نے اس کے کلام میں سے بہت بڑے حصے کو مسلمانوں اور فلاسفہ کے درمیان ایک حدِ فاصل اور برزخ قرار دیا ہے پس مسلمان تو اس میں مشائین کی طریقے پر عقلی نظر کو تلاش کرتا ہے اور فلسفی اس کی وجہ سے اسلام کامنقاد ہوتا ہے ،اسلام قبول کرتا ہے ایک فلسفی کے اسلام کی طرح پس وہ مسلم محض نہیں بنتا نہ وہ فلسفی محض بنتا ہے مشائین [چل چلاؤ والوں ]کے طریقے پر ۔ اور رہا فلسفہ کی مطلقا نفی یا مطلقا اثبات تو یہ ممکن نہیں اس لیے کہ فلاسفہ کا کوئی ایسا مذہبِ معین نہیں جس کی وہ دفاع کرتے ہوں اور نہ کوئی ایسا قول ہے جس پر وہ متفق ہوں الٰہیات میں ،معاد کے مسئلے میں اور پیغمبروں کے نبوت اور شرائع کے بار ے میں بلکہ طبعیات اور ریاضیات میں بھی بلکہ بہت سے منطق میں بھی اور وہ اس شے پر متفق نہیں ہوتے جس پر تمام کے تمام بنو آدم متفق ہیں یعنی ان امور میں سے جو حسیات اور مشاہدہ کے قبیل سے ہیں اور ان عقلیات کے قبیل سے جس میں کسی کا بھی اختلاف نہیں اور جس شخص نے بھی تمام کے تمام فلاسفہ سے ان اجناسِ علوم میں سے کوئی ایک قول متفق علیہ نقل کیا ہے تو وہ ان کی فرق اور ان کے اقوالوں کے اختلاف پر علم نہیں رکھتا بلکہ اس کے لیے کافی ہے کہ وہ مشائین کے طریقے میں غور کرے جو کہ ارسطوکے اصحاب ہیں جیسا کہ ثامسطیوس ،اسکندرِ افرودیس،اور برقلسمن جو کہ قدماء ہیں اور جیسے کہ فارابی ،ابن سینا ،سہر وردی (مقتول)، ابن رشد حفید اور ابو البرکات اور اس کے امثال متاخرین میں سے ہیں اگرچہ ان میں سے ہر ایک کے ہاں الٰہیات اور نبوت میں اور معاد کے بار ے میں ایسا قول ملتا ہے جو اُس کے سلف متقدمین سے منقول نہیں اس لیے کہ ان لوگوں کے ہاں اس باب میں کوئی ایسا علم نہیں جس کو ان کے اتباع اور پیروکارقبول کریں اور بے شک ان لوگوں کا اکثر علم طبیعات پر مشتمل ہے پس وہ اسی میں وہ غور خوض کرتے ہیں اور اس میں ان کا نظر دوڑتا ہے اور اسی کے سبب اِن لوگوں نے ارسطوکی تعظیم کی ہے اور اس کا مرتبہ اونچا کیا ہے اور اسی کے سبب ہے اس کی اتباع کی ہے بوجہ اس کے کہ وہ قطیعات میں اکثر کلام کرنے والا ہے اور اس میں اس کی بات دوسروں کی بہ نسبت درستگی کے زیادہ قریب ہے ۔ رہے الٰہیات تو وہ اور اس کے پیروکاراس کی معرفت سے انتہائی دوری میں پڑے ہوئے ہیں اور ان کے کلام میں وہ پوری بات پائی جاتی ہے اور ان کے علاوہ دوسروں کے کلا م میں بھی عقلیات صحیحہ میں کوئی ایسی بات نہیں جو پیغمبروں کی تعلیمات کے خلاف پر دلالت کرتی ہو اس کے خلاف ان میں کوئی بھی دلیل ظنی نہیں ہے چہ جائے کہ قدمِ افلاک پر کوئی دلیلِ عقلی پائی جائے بلکہ افلاک میں سے کسی بھی شے کے قدم پر کوئی دلیل نہیں پائی