کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 277
کرتے ہیں کہ وہ بھی کوئی ملت سماویہ ہیں ۔ اور بعض تودوسروں کی بہ نسبت نقلی دلائل کا زیادہ علم رکھتے ہیں پس وہ متکلمین کے کلام پر ایک ایسا رد کرنے لگے جس پر ان کے ہاں کوئی نقلی دلیل نہیں تھی۔ اور جن امور میں ان کے پاس کوئی نقلی دلیل تھی؛ اس میں انہوں نے دو قولین میں سے کوئی ایک اختیار کر لیا یا یہ کہ وہ ظاہراً اور باطناً دونوں حالتوں میں اس بات کا اقرار کریں بشرطیکہ وہ ان کے معقول کے موافق ہوں یا پھر وہ ان کو اپنے امثال کے ساتھ ملحق کریں اور وہ یہ کہیں کہ پیغمبروں نے تمثیل اور تخییل کے طریقے پر ان امور پر کلام کیا ہے بوجہ حاجت کے۔
ابن رشد اور ان کے امثال اس طریقے پر چلے ہیں اسی وجہ سے یہ لوگ ابن سینا اور ان کے امثال کی بہ نسبت اسلام کے زیادہ قریب ہیں اور وہ عملی احکام میں ان لوگوں کی بہ نسبت حدودِ شرح کی زیادہ حفاظت کرنے والے ہیں یعنی ان لوگوں کی بہ نسبت جنہوں نے واجباتِ اسلام کو چھوڑ دیا اور اس کے محرمات کو حلال سمجھا اگرچہ ان میں سے ہر فریق کے قول میں الحاد اور تحریف پایا جاتا ہے قرآن و سنت کی مخالفت کے سبب اور ان کے قول میں درستگی اور حکمت اسی نسبت سے پائی جاتی ہے جس نسبت سے وہ کتاب و سنت کے موافق ہیں اسی وجہ سے ابن رشد حدوثِ عالم کے مسئلہ میں اور اجسام کی دوبارہ بعثت کے مسئلہ میں توقف ظاہر کرنے والا ہے اور دونوں قولین کو جائز قرار دینے والا ہے اگرچہ اس کا باطن اپنے سلف کے قول کی طرف نسبتاًزیادہ مائل ہے اور اس نے ابو حامدِ غزالی پر تھافت التھافت میں ایسا رد کیا ہے کہ اس کے بہت سے مقامات میں اس نے خطا کی ہے اور اس معاملے میں حق ابو حامد غزالی کے ساتھ ہے یعنی حق اس کی تائید کرتا ہے ۔
بعضوں نے اس کو ابن سینا کے کلام میں سے قرار دیا ہے نہ کہ اس کے سلف کے کلام میں سے اور اس میں خطاء کی نسبت ابن سینا کی طرف کر دی اور بعض نے تو اس میں ابو غزالی کی طرف زبان درازی کی اور اس کو قلت انصاف کی طرف منسوب کیا بوجہ اس کے کہ اس نے اصولِ کلامیہ اور فاسدہ پر اس کی بنیاد رکھی ہے جیسے کہ رب تعالیٰ کا کسی سبب اور حکمت سے کوئی فعل نہ کرنا اور اس طرح قادرِ مختار کا اپنے دو مقدورین میں سے کسی ایک کو دوسرے پر بلا کسی مرجح کے ترجیح دینا ۔
بعض تو اس میں بوجہ اشتباہ کے حیرت میں پڑ گئے اور اس نے اس میں کلام کیا اور میں نے ابو حامد غزالی کے قول کی تحقیق کی ہے کہ اس میں درست کتنا ہے ،اصولِ اسلام کے موافق کتنا ہے اور اس کلام کے خطاء کو بھی بیان کیا کہ جو اس کے مخالف ہے یعنی ابن رشد اور دیگر فلاسفہ کا کلام اور یہ بات بھی میں نے ثابت کی ہے کہ ان لوگوں نے کتاب و سنت کے موافق جو بات حق کی ہے اس کو رد نہیں کیا جا سکتا بلکہ قبول کیا جائے گا اور جس میں ابو حامد غزالی نے کوتاہی کی ہے یعنی ان کے اقوالِ فاسدہ کے ابطال میں تو ایک دوسرے طریقے سے اس کا رد کرنا بھی ممکن ہے جس کے ذریعے ابو حامد کی اس کے صحیح قصدپر مدد کی جا سکتی ہے اگرچہ یہ اور اس جیسے دوسرے امثال انہوں نے اس کے اوپر زبان درازی کی ہے بسبب ان اصولِ فاسدہ کے جن میں امام غزالی نے ان کے ساتھ