کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 276
درمیان پروان چڑھے پس ان میں سے ہر ایک کی حق سے جو دوری ہے وہ پیغمبر کے آثار کی معرفت سے دوری کے اعتبار سے ہے (یعنی جو پیغمبرکے آثار کی معرفت سے جتنا دور ہے اتنا وہ حق سے دور ہے )اور حق سے اس کے قرب پیغمبر کے آثار کے معرفت سے اس کے قرب کے اعتبار سے ہے ۔ یہ فلاسفہ حدوثِ عالم کے مسئلہ میں ان لوگوں کے قول کو باطل سمجھتے ہیں اور ان کا خیال یہ ہے کہ انہوں نے جب ان کے اس قول کو باطل کر دیا تو پھر ان کا یہ قول حق رہ گیا اور فاعلیت کے دوام کے قول کو انہوں نے مجمل قرار دیا جس طرح کے ان لوگوں نے اُن کے اس قول کو یعنی کہ ہر وہ شے جو حوادث سے سابق نہ ہو تو وہ حادث ہی ہوتا ہے اس کے اِس قول کو مجمل قرار دیا ہے ۔پس ان لوگوں کے قول کا نتیجہ یہ نکال کہ جن لوگوں نے ان کے قول کو سنا تو ان میں سے اکثروں نے اللہ تعالیٰ کے ازل میں متکلم ہونے کا انکار کر لیا۔ کیوں کہ انہوں نے نوعِ فعل اور عینِ فعل کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا اور ان لوگوں کاقول تو اس بات کا سبب بنا کہ بہت سوں نے فلک کے دوام یا عالم میں سے کسی شے معین کے دوام کا گمان کر لیا کیوں کہ ان لوگوں نے نوعِ فعل اور عینِ فعل کے درمیان فرق نہیں کیا اور ’’فاعلیت کا دوام ‘‘تو ایک مجمل بات ہے کیا اس کے ذریعے فاعلیت معینہ کا دوام مراد ہے یا فاعلیتِ مطلقہ کا دوام مراد ہے ،یا فاعلیتِ عامہ کا دوام مراد ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ اگر فاعلیتِ عامہ تمام مفعولات کا دوام کہلاتا ہے تو اس کا تو کوئی بھی عاقل قائل نہیں اور کسی مفعولِ معین کے لیے فاعلیتِ معینہ کا دوام ایک ایسی بات ہے جس پر ان کے ہاں بالکل کوئی دلیل نہیں بلکہ ادلہ عقلیہ تو اس کی نفی کرتے ہیں جس طرح کہ ادلہ نقلیہ نے اس کی نفی کی ہے رہا ۔ فاعلیتِ مطلقہ کا دوام تو ان کے قول کو ثابت نہیں کرتا بلکہ وہ تو ان لوگوں کے خطا کو ثابت کرتا ہے کہ نفی کرنے والے ہیں یعنی جو ان کے مدِ مقابل ہیں اہل کلام اور فلسفہ میں سے اور اس قول کے بطلان سے دوسرے کے قول کی صحت لازم نہیں آتی ہاں سوائے اس صورت کے کہ صرف یہی دوقول ہوں ( کوئی تیسرا قول نہ ہو )۔ رہا یہ کہ اگر وہاں کوئی قولِ ثالث بھی ہے تو پھر دو قولین میں سے کسی ایک کی صحت ضروری نہیں ٹھہرے گی پس اگر قولِ ثالث ادلہ عقلیہ اور نقلیہ سے مؤید ہو ( پھر تو بطریق اولی کسی ایک قول کی صحت ضروری نہیں ) اور یہاں تومقصود یہ ہے کہ دونوں طائفتین جنہوں نے افلاک کے قدم کا قول اختیار کیا ہے وہ ملحد ہیِ خواہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور افعال کااس کی ذات کے ساتھ قیام کا قول اختیار کریں یا وہ یہ نہ کہیں یعنی اس کی نفی کریں پس یہ فلاسفہ باوجود اس کے کہ غلطی اور درستگی میں ،خطاء اور ثواب میں علوم الٰہیہ کے بارے میں خطاء اور ثواب میں مختلف مراتب پر ہیں بتحقیق وہ رد جو ان کی طرف متوجہ ہے وہ ان بدعات کی وجہ سے ہے جس کو ان اہل کلام نے اختیار کیا ہے اور اس کو ملتِ حق کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ وہ فلاسفہ جو اہل کلام کی بہ نسبت مللِ حقہ کی معرفت سے انتہائی زیادہ دورہیں ان میں سے بعض یہ گمان