کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 275
اگرچہ وہ فلاسفہ جنہوں نے رب تعالیٰ کی صفات اور اس کے ان افعال کی نفی کی جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہیں اور وہ فلاسفہ جوان سے پہلے گزرے ہیں وہ الحاد اور تحریف کے اعتبار سے ان لوگوں سے زیادہ فساد میں مبتلا ہیں جنہوں نے صفات اور امور اختیاریہ کو ثابت کر دیا لیکن ا س کے باوجود قدمِ عالم کا قول اختیار کیا اور دونوں جماعتیں صریح معقول سے نکل گئی ہیں جس طرح کہ صریح منقول سے بھی یہ رو گردانی کر چکے ہیں بسبب ان غلطیوں کے جو اس باب میں انہوں نے کی ہیں اور ہر وہ شخص جو حق میں سے کسی بھی شے کا اقرار کرے تو یہ اس کے لیے دوسرے کے قبول کی طرف داعی بنتا ہے اور اس پر اُس کا قبول کرنا لازم ہو جاتا ہے جو کہ اس شخص پر نہیں لازم ہوتا جس نے حق کو پہنچانا نہیں تھا اوررب تعالیٰ کی ذات کیساتھ قائم صفات اور افعالِ کی نفی کا قول منافی ہے اس کے اس ذات کے فاعل اور اس کے محدث ہونے کے ۔ اسی وجہ سے جب ابن سینا نے اپنے اشارات میں ان لوگوں کے اقوال کو ذکر کر دیا جو قدم اور حدوث کے قائل ہیں تو اس نے صرف اور صرف ان لوگوں کے قول کو ذکر کیا ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ دوسرے قدیم ذوات کو بھی ثابت کیا ہے جو کہ معلول نہیں ہیں اس کے لیے کہ جیسے وہ قول جو کہ ذی مقراطیس سے منقول ہے قدمائے خمسہ کا اور ابن ذکریا نے اس کو اختیار کیا ہے اور ان مجوس کا قول جو کہ دو قدیم اصلین کے قدم کے قائل ہیں اور معتزلہ میں سے متکلمین کا قول اور اس کے اصحاب کا قول پس اس نے ان اہل ملل کا قول اور آئمہ فلاسفہ کا قول ذکر نہیں کیا جنہوں نے رب تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہونے والے امور ِ اختیاریہ کو ثابت کیا ہے اور یہ بات کہ وہ ازل سے اپنی مشیت کے ساتھ متکلم ہیں جب بھی وہ چاہے افعال کواپنی مشیت کے ساتھ اور ان دونوں فریقین کی حجتیں اور دلائل اس نے ذکر کر دئیے ہیں اور پھر اس نے یہ اقوال پڑھنے والے کو اس بات کا حکم دیا ہے جس قول کو وہ ترجیح دیں اسی کو وہ اختیار کر لیں ساتھ اس کے کہ ضروری ہے کہ وہ اُس توحید کو بھی تھامے ہوئے ہوجو اس کے نزدیک نفس کی صفات سے عبارت ہیں اس لیے کہ اس کو اس نے بنیاد قرار دیا ہے ایسا بنیاد جو اور اس کے اور اس کے خصوم کے درمیان متفق علیہ ہے۔ امام رازی نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ صفات کا مسئلہ حدوثِ عالم کے مسئلے سے متعلق نہیں اور صورتِ حال وہ نہیں ہے جو کہ امام رازی نے فرمایا ہے بلکہ صفات کی نفی تو ایک ایسی بات ہے جو قدمِ عالم کے قائلین کے شبہات کی تقویت کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کی ذات کے ساتھ قائم ہونے والے افعال کے اثبات کے ساتھ ان کے ادلہ کے انتہائی درجے کا فساد ظاہر ہو جاتاہے بلکہ ان کے قول کا فساد باوجود یکہ صفات کی نفی اس کے قول کے فساد پر بھی دلالت کرتی ہے یہ اس امر سے زیادہ قبیح ہے جو ان کے مخالفین کے قول کے فساد پر دلالت کرتا ہے لیکن ابن سینا تو ان متکلمین کے درمیان پروان چڑھے جو صفاتِ رب تعالیٰ کی نفی کرنے والے ہیں اور ابن رشد کلاّبیہ کے درمیان پروان چڑھے اور ابو البرکات تو بغداد میں اہل سنت علماء اور علماء اہل حدیث کے