کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 274
ہوئے تھے اور ان کے تمثیل کے فساد سے اور یہ لوگ جب اپنے قول کی مثال اس امر کے ساتھ دیتے ہیں جو معقول ہوتا ہے مثلا حرکت ِ حیوان اور حرکتِ شمس تو ان کے اوپر پھر فرق کا اور نقض کا اور اس کے علاوہ دیگر امور کا اعتراض نہیں ہوتا جو کہ ان اگلوں کے اقوال پر ہوتا ہے لیکن ان سے یہ کہا جائے گا کہ تمہارے لیے عالم میں سے کسی شے کا قدم کہاں ثابت ہوتا ہے اور عقلیات میں کوئی ایسی بات نہیں پائی جاتی جو اس پر دلالت کرتی ہو اور وہ امور جو تم اور تمہارے امثال اور لوگ بھی ذکرکرتے ہیں وہ تو فعل کے دوام پر دلالت کرتے ہیں نہ کہ کسی فعل معین کے دوام پر اور نہ کسی مفعولِ معین کے دوام پر پس کہاں تمہارے لیے فلک کے دوام یا مادہ فلک کا دوام یا عقول یا نفوس کا دوام یا اس کے علاوہ دیگر ثابت ہوتے ہیں جو کہ ان لوگوں کا اختیار کردہ قول ہے جو قدم عالم کے قائل ہیں یعنی کہ وہ قدیمِ ازلی ذات ہے وہ ازل سے ہے اور ہمیشہ رہیں گے اور وہ رب تعالیٰ کے ساتھ مقارن ہیں اور اس اپنی قدم کے ساتھ قدیم ہیں اور اپنی ابدیت کے ساتھ ابدی ہیں ۔پس اولا تو ان سے بات کی جائے گی دلیل کے مطالبہ کی اور ان کے ہاں اس پر کوئی دلیلِ صحیح قطعا موجودنہیں ۔
بلکہ یہ ان متکلمین اور فلاسفہ کے قول کی طرف مائل ہوئے جن کی رائے یہ ہے کہ جنسِ کلام اور فعل ممکن بنا بعد اس کے کہ ممتنع تھا بغیر کسی نئے ارداے کے پیدا ہونے کے اور فاعل ذات قادر بنابعد اس کے کہ وہ قادر نہیں تھا اور یہ کہ وہ حوادث کو پیدا کرتا ہے بغیر کسی زمان کے اور یہ بھی کہ وہ ازل سے قدیم ہے اور فعل اور کلام سے اس کی ذات معطل ہے وہ نہ کلام کرتا ہے اور نہ ازل میں وہ کسی شے کا فاعل ہے یہاں تک کہ پھر اس نے کلام کیا اور فعل بھی صادر کر دیا ۔
بہت سے تو یہ کہتے ہیں کہ فعل اور کلام سے اللہ کی ذات معطل ہو جائے گی لہٰذا جنت فنا ہو جائے گی ،ان کی حرکت بھی فنا ہو جائے گی جیسے کہ جہم بن صفوان نے جنت اور نار کے بارے میں کہا ہے اور جیسے کہ ابو االھزیل علاف نے حرکات کی فنا میں کہا ہے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فعل اور کلام کی مدت کو اس کے ازلیت اور ابدیت کی بہ نسبت انتہائی درجے کی قلت والی مدت قرار دی ہے پس ان لوگوں نے ان مبتدعینِ جہمیہ اور معتزلہ کے بارے میں امیدرکھی اور ان متکلمین اور مبتدعین کی وجہ سے یعنی ان کی طرف میلان کی وجہ سے دوسرے اہل ملل کے احوال پر رد کیا اور انہوں نے یہ گمان کیا کہ قولِ صحیح تو صرف اور صرف انہی مبتدعین کا ہے اور یا یہ کہ ان فلاسفہ ملحدین کا قول ہی درست قو ل ہے ۔
ان کا قول یہ ہے کہ نقلی دلائل ان مبتدعین کے زیادہ قریب ہے اور ملحدین کے قول سے زیادہ بعید ہے پس انہوں نے کہا کہ انبیائے کرام نے مثالیں پیش کی ہیں اور ان کے لیے حقائق اشیاء کے ساتھ خبر دینا ممکن نہیں تھا اور وہ الحاد کے دروازے میں داخل ہو گئے اور اللہ کے کلام اور اس کے کلمات کو اپنے صحیح محامل اور معانی سے ہٹا کرتحریف میں مبتلا ہوگئے بسبب ان مفسدہ کے جو ان میں پایا جاتا ہے یعنی سمعیات اور نقلی دلائل کا انکار۔