کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 273
کے علوم کے حدوث کے قول پر (یعنی اللہ تعالیٰ کے ارادوں اور علوم کو حادث مانے بغیر اس کو اس عالم کامدبر یعنی انتظام سنبھالنے والا نہیں کہا جاسکتا )۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے اصحاب میں سے یا دوسرے طوائف کے لوگوں میں سے جس شخص نے بھی اس بات کی نفی کی ہے تو اس نے کسی دلیلِ عقلی کے ذریعے نفی نہیں کی جو اس پر دلالت کرے بلکہ محض اللہ کی ذات کی تنزیہ اور اس کے اجلال اور توقیر کے لیے کی ہے جوکہ بالکل ایک مجمل اور ناتمام بات ہے اور یقیناً اللہ کے ذات کی تنزیہ اور اس کا اجلال تو واجب ہے پس ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ حادثِ ثانی کے وجود کے وقت تو علت ِ تامہ کا وجود ضروری ہے اور صرف اول کا عدم کافی نہیں تو وہ جواب میں کہتے ہیں کہ ارادہ جاز مہ اور قدرت تامہ کا کمال تو حاصل ہو چکا ہے جس نے مقدور کے حدوث کو ثابت کر دیا ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ فاعل کی حالت (حادثِ ثانی کے حدوث سے )پہلے اور (حادثِ ثانی کے حدوث کے )بعد میں ایک طرح ہے اور اس میں ایک ایسے امر کا کوئی تجدد نہیں آیا جس کے ذریعے وہ حادثِ ثانی کو وجود دے بلکہ فاعل کے احوال متنوع اور مختلف ہوتے رہتے ہیں اور خود اس کی ذات ہی تو ان احوال کے لیے موجب ہے جو اس کے ساتھ قائم ہے لیکن حالتِ ثانیہ کا وجود اس حال کے عدم کے ساتھ مشروط ہے جو اس کے ضد اور مخالف ہے اور نفسِ فاعل ہی امورِ وجودیہ کا موجب ہے جو کہ حادث ثانی کے لیے موجب ہے پس واجب الوجود ذات احداث کی صفت میں غیر کی طرف محتاج نہیں ہے جیسے کہ ممکنات کا حال ہے بلکہ خود اس کی ذاتِ واجبہ ہی ہر حادث کے لیے موجب اور محدث ہے ۔ حق سبحانہ وتعالیٰ ملزوم اور اس کے لوازم دونوں کا فاعل ہیں اور دو متنافین میں سے ہر ایک کا فاعل ہیں دوسرے کے عدم کے وقت اور وہ ہر شے پر قدرت رکھتاہے لیکن باتفاق عقلاء اجتماع ضدین تو کوئی شے نہیں بلکہ وہ تو جسم کو حرکت دینے پر قادر ہے اس کی تسکین کے بدلے میں اور اس کی تسکین یعنی اس کی حرکت کو ختم کرنے پر قادر ہیں اس کی تحریک کے بدلے میں (یعنی ہر ایک پر علی سبیل البدل قادر ہیں )اور اسی طرح اس کو کالا رنگ دینے پر قادر ہیں اس کے تبییض (سفید رنگ دینا )کے بدلے میں اور اس کے تبییض یعنی سفید رنگ دینے پراس کے تسوید کے بدلے میں اور وہ احد الضدین کو وجود دے سکتے ہیں دوسرے کے بغیر جب کہ اس کا وہ ارادہ تام وجود میں آجائے جو قدرتِ کاملہ کے ساتھ ہوتی ہے ۔ اس کی ذات ہی تو ان تمام امور کے لیے موجب اور محدث ہے اگرچہ اس کا فعلِ اول کا احداث ثانی کے حصول میں شرط ہے پس اس کے اندر وہ غیر کی طرف محتاج نہیں ہے بلکہ اس ذات کے علاوہ جو کچھ ہے وہ سب اس کی طرف محتاج ہے اور وہ خود اپنے تمام ماسوا سے مستغنی اور بے نیاز ہے۔ ان لوگوں نے ان اشکالات سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی ہے جو ان کے سلف اور اگلوں پر وارد