کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 272
باوجود کثرتِ اخطاء کے انتہائی کم ہے لیکن ابن سینا اور اس کے امثال نے اس میں توسع پیدا کیا اورالہیات اور نبوات اور آیات کے اسرار اور عارفین کے مقامات (مراتب )میں انہوں نے کلام کیا بلکہ ارواح کے معاد (روح کا جسم کی طرف واپس لوٹنا )میں بھی ایک ایسا کلام انہوں نے پیش کیا جو ان لوگوں کے ہاں نہیں ملتا اور اس میں جو کچھ ٹھیک باتیں پائی جاتی ہیں تو اس میں وہ انبیائے کرام کے طریقے پر چلے ہیں اور جو خطا ء ہیں تو اس میں انہوں نے اپنے سلف کے اقوال پر اپنی بنیاد رکھی ہے اسی وجہ سے ابن رشداور اس کی دیگر فلاسفہ کہتے ہیں کہ ابن سینا نے وحی ،منامات ،مستقبلات پر علم کے اسباب اور ان کے امثال کے بارے میں انہوں نے جو بات ذکر کی ہے وہ ایک ایسا امر ہے جوانہوں نے اپنی طرف سے اس کو ذکر کیا ہے اور اس سے پہلے مشایخ جو کہ ان کے سلف ہیں انھوں نے ایسی بات نہیں کہی۔
ابن ملکا اور اس کے متبعین کا فلاسفہ کے اسلاف پر رد :
رہے ابو البرکات یعنی صاحب ’’المعتبر‘‘ اور اس کے امثال تو وہ لوگ اس باب میں ان دونوں فریقین کی بہ نسبت اچھے قول کو اختیار کرنے والے ہیں اس لیے کہ ایک تو وہ لوگ ان کی تقلید نہیں کرتے دوسرے وہ عقلی نظر کے طریقے پر چلے ہیں بغیر تقلید کے اور انوارِ نبوت سے بھی ان کو استفادہ حاصل ہے پس اس نے اللہ تعالیٰ کے لیے جزئیات کا علم ثابت کیا اور اپنے سلف پراس نے اچھے طریقے سے رد کیا ،ایسے ہی اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کے افعال کو بھی ثابت مانا اور اس کے سلف میں سے جو خطا کرنے والے تھے ان کی خطا کو واضح طور پر بیان کر دیا اور اسبابِ حوادث میں ان کے قول کے فساد کے وہ قائل ہوئے پس وہ ان لوگوں کے طریقے سے اس بات کی طرف پھر گئے کہ اس نے رب تعالیٰ کے لیے ایسے ارادات کو ثابت کر دیا جو حوادث کے لیے موجب ہیں یعنی حوادث کو پیدا کرنے والے ہیں اور اس کی ذات کے ساتھ قائم ہیں اور ان کا قول اس مقام کے علاوہ اور کسی جگہ میں تفصیل کے ساتھ بیان ہو چکا ہے ۔
یہ لوگ کہتے ہیں کہ :بے شک حوادث دھیرے دھیرے وجود میں حادث ہوئے بوجہ ان اسبابِ موجبہ کے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہیں پس وہ ایسے امور کو ثابت نہیں کرتے جو دھیرے دھیرے حادث ہوں ،مختلف الحقائق ہوں اورایک ذاتِ بسیطہ سے صادر ہوں جس کے لیے نہ کوئی صفت اور نہ کوئی فعل ثابت ہو جس طرح کہ اگلوں نے کہا تھا بلکہ وہ فلاسفہ کے بڑے بڑے آئمہ کے قول کے موافق ہیں وہ آئمہ جو ارسطوسے پہلے تھے جو اللہ کی ذات کے لیے صفات اور افعال کو ثابت کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ حادثِ معین اسی وقت پیدا ہواجب اس کی علت تامہ موجود ہوئی جو کہ صرف اور صرف اس کے حدوث کی حالت میں تام بنتی ہے اور علت کا تمام بوجہ اس کے ارادہ اور افعال کے ہے جو رب تعالیٰ پیدا فرماتے ہیں اور اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے ،اسی وجہ سے تو وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ بات ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس عالم کے لیے مدبر بنیں مگر اس کے ارادوں اور اس