کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 271
تو اس کی زیادہ سے زیادہ حد یہ ہے کہ وہ حرکتِ فلک کے لیے علت غائیہ ثابت ہو جائے گی اور اس میں حرکت فلک کیلئے علت غائیہ ثابت ہونے کی سوائے اس کے کوئی اور دلیل نہیں کہ وہ یہ کہیں کہ اس کے تصورات اور حرکات کو وہی پیدا کرنے والا ہے ،اس واجب الوجود کی طرف احتیاج کے بغیر اور اس کے فاعل بننے میں علت اولیٰ کی طرف احتیاج کے بغیر جس طرح کہ محبت کرنے والا عاشق معشوق طرف حرکت کرنے کے لئے فاعل ہونے کے جہت سے محبوبِ معشوق کی طرف محتاج نہیں ہوتا بلکہ اس کے مراد اور مطلوب بالحرکۃ ہونے کی جہت سے وہ محتاج ہوتا ہے اور اس کا مطلب تو یہ ہو کہ حرکاتِ محدثہ اور تمام متحرکات رب العالمین سے مستغنی ہیں نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ ان حوادث میں کسی شے کے لیے بھی فاعل نہیں اور نہ وہ انکار ب ہے ۔ اگر وہ اس کے باوجود یہ کہتے ہیں کہ اس نے فلک کو پیدا نہیں کیا بلکہ وہ (فلک)تو قدیم واجب الوجود بذاتِ خود ہے اور وہ عالم میں سے کسی شے کا رب نہیں تو اگر وہ کہیں کہ یہ وہی ہے جس نے اس کو پیدا کیا ہے تو یہ ان کی طرف سے ایک ایسا تناقض ہے جیسے کہ قدریہ کے اقوال میں تناقض پایا جاتا ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا اس ذاتِ فلک کو اور اس کی صفات کو پیدا کرنا یہ اس امرکو ثابت کرتا ہے کہ اس میں سے کوئی شے بھی حادث اورموجود نہ بنے مگر رب تعالیٰ کے فعل اور اس کے احداث کے ساتھ جس طرح کہ باقی حیوانات بھی تب ہی حادث ہوتے ہیں جب رب تعالیٰ ان کو پیدا کرتا ہے اور ان کا احداث کرتا ہے پس یہ قول اس تعطیل عام اور اس تعطیل خاص کے درمیان متردد ہے جس میں وہ قدریہ سے زیادہ بد تر ہیں اور رہا ان کا قدریہ پررد کرنا تو یہ بالکل باطل ہے کیونکہ وہ (قدریہ )ہر تقدیر پر حالانکہ اِن سے بہتر ہیں۔ بتحقیق اِس مقام پراُس کلام کو ذکر کر دیا گیا ہے جو انہوں نے ارسطوکی طرف نقل کرتے ہوئے ذکر کیا ہے اور اس خطاء اور گمراہی کو بیان کیا ہے اس کے علاوہ مقام بھی اور بتحقیق یہ قوم اللہ کی معرفت ،اس کے مخلوق کی معرفت ،اس کے امر اور اس کی صفات ،ان تمام کی معرفت سے بہت زیادہ دور ہیں اور یقیناً یہود و نصاریٰ تو ان سے اس باب میں بدرجہا بہتر ہیں اور یہ وہ طریقہ ہے جس پر علت اولیٰ کے اثبات میں ارسطواور اور قدمائے فلاسفہ چلے ہیں اور وہ حرکتِ فلک کے لیے حرکتِ ارادیہ کے اثبات کا طریقہ ہے اور انہوں نے علتِ غائیہ کو ثابت کیا ہے جس طرح کہ ذکر کر دیا گیا ہے پس ابن سینا اور متاخرین میں سے ان کے امثال نے دیکھا کہ اس میں گمراہی پائی جاتی ہے تو وہ وجود اور امکان کے راستے کی طرف منحرف ہوئے اور انہوں نے متکلمین کے طریقے سے اسے چوری کیا جو کہ معتزلہ تھے پس یقیناً انہوں نے محدث (خالق )کے لیے محدث (مخلوق )کی ذات سے استدلال کیا پس ان لوگوں نے ایک ممکن سے واجب پر استدلال کر لیا اور یہ ایک ایسا طریقہ ہے جو واجب الوجود ذات کی اثبات پر دلالت کرتا ہے رہا اس کے تعین کا اثبات تو اس میں یہ ایک اور دلیل کی طرف محتاج ہیں اور وہ پھر ترکیب کے طریقے پر چلے ہیں اور یہ بھی معتزلہ کے کلام سے چوری کیا ہوا ہے ورنہ تو ارسطوکا کلام الٰہیات میں