کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 270
یہ وہی بات ہے جولوگ حرکتِ فلک کے بارے میں کہتے ہیں کہ بے شک وہ اس کے ارادے اور قدرت کے ساتھ صفتِ دوام کے ساتھ متحرک ہے بغیر کسی ایسے سبب کے جو اس کے مرید بننے اور قادر بننے کا تقاضہ کرتا ہو باجود یکہ اس کا ارادہ اور اس کی قدرت اور اس کی حرکات حادث ہیں بعد اس کے کہ وہ موجود نہیں تھے بلکہ معدوم تھے اور وہ بغیر کسی ایسے شے پیدا ہونے والا ہے جس نے اس کو مرید اور متحرک بنایا پس ایک ممکن چیز حاصل ہوا بغیر ایسے مرجح تام کے جس نے اس کے رجحان کو ثابت کیا اور حادث حاصل ہوا بغیر کسی ایسے سببِ تام کے جس نے اس کے حدوث کو ثابت کیا ۔
پھر بے شک وہ لوگ قدریہ پر اس بات کی نکیر کرتے ہیں کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ قادر ذات وہ اپنے دو مقدورین میں سے ایک کوبلا مرجح کے ترجیح دیتا ہے۔ بلکہ اپنے ارادے ہی سے وہ اسے پیدا کرتا ہے بغیر اس کے کہ اس کے لیے کوئی اس ارادے کے علاوہ کوئی اور شے اس کی ذات میں حادث ہو اور وہ یہ کہتے ہیں کہ اس نے ارادے کو پیدا کر لیا بغیر کسی ارادے کو اور یہ لوگ ایک ایسی بات کہتے ہیں جو اس سے بھی زیادہ ابلغ ہے حرکتِ فلک میں اور وہ ان کے اصول صحیحہ میں بھی مناقض اور متصاد ہے پس یہ لوگ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ حادث ارادے اور حرکاتِ حادثہ صرف اور صرف ایک ایسے سبب کے ذریعے پیدا ہوتی ہیں جو اس کی حدوث کی تقاضا کرنے والا ہو اور کمالِ سبب کے پائے جانے کی صورت میں اس کا حدوث واجب ہے اور اس کے نقص کی صورت میں اس کا حدوث ممتنع ہے تو بتحقیق انہوں نے اس بات کو جان لیا جو انہوں نے قدمِ عالم اور سببِ حادث کے بارے میں کہی وہ باطل ہے ۔
اس لیے یقیناً ان کے نزدیک تو فلک سے اوپر کوئی ایسا سبب نہیں پایا جاتا جو اس کے حادث ہونے والے تصورات اور ارادات کے حدوث کا موجب ہو سوائے ان ارادوں اور تصورات کے جو اس مخلوقِ کے لیے ثابت ہیں جو واجب الوجود کی طرف محتاج ہے اور یہ بات بھی واضح طور پر معلوم ہے کہ جو شے بالقوۃ ہو وہ فعل (وجود حسی اور حقیقی ) کی طرف نہیں منتقل نہیں ہوتا مگر کسی مخرج ذات کی وجہ سے یعنی جو اس کو قوتِ فعل کی طرف نکالے پس ضروری ہے کہ فلک سے اوپر کوئی ایسی شے ہو جو اس کی حرکت کے حدوث کا موجب ہو ۔
ارسطواور اس کے متبعین نے جو بات ذکر کی ہے کہ اول ذات وہی ہے جو فلک کو حرکت دیتا ہے اسی طرح جیسا معشوق کا عاشق کو حرکت دینا ہے اور یقیناً فلک اس کے ساتھ تشبہ (اس کے مثل ہونے کی وجہ سے )کی وجہ سے متحرک ہے اور اسی وجہ سے وہ علل کے لیے علت بنتا ہے اور اسی وجہ سے فلک کا قوام اور اس کی بقاء ہے کیوں کہ فلک کا قوام اس کی حرکت سے ہے اور اس کی حرکت کا قوام اس کے ارادے اور شوق کی وجہ سے اور اس کے ارادہ اور شوق کا قوام تو اس موجود کی وجہ سے جو کہ اس مراد پر سابق ہے جس کے ساتھ تشبہ کی وجہ سے اس کو حرکت حاصل ہوئی پس یہ کلام باوجود یکہ اس میں وہ باطل کلام پایا جاتا ہے جس کو ماقبل میں کئی مقامات پر بیان کر دیا گیا