کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 269
تو ان سے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر تم کہتے ہو کہ وہ اس حادث کے لیے علتِ ازلیہ ہیں تو پھر اس کا ازل میں وجود لازم آئے گا اور گر تم یہ کہتے ہو کہ وہ علتِ تامہ تب ہی بنتا ہے جب قوابل اور استعدادت پیدا ہوں تو جواب میں تمہیں کہا جائے گا کہ جب قوابل کا پیدا کرنا بھی اسی کی ذات سے (مستفاد)ہے تو وہ دونوں کے لیے محدث (پیدا کرنے والے )ہیں پس ان دونوں کے احداث سے پہلے وہ نہ اس کے لیے علتِ تامہ ہے اور نہ اس کے لیے ،پس تم ان دونوں کو اُس نے پیدا کیا قابل اور مقبول کو پس جب اس نے ان دونوں کو پیدا کر دیا کسی چیز کے تجدد کے بغیر تو یہ بات لازم آئی کہ وہ ان دونوں کے لیے ازل ہی سے علتِ تامہ تھا یا وہ ان دونوں کے لیے علت تامہ نہیں تھا پس یہ بات لازم آئے گی کہ یہ دونوں حادث اشیاء قدیم ہوں یا حادث ہوں اس لیے کہ یقیناً ان دونوں کی علتیں اگر ازلی ہیں تو پھر ان کا قدم لازم آئے گا۔ اور اگر وہ حادث نہیں ہیں تو پھر ان کا عدم لازم آئے گا اور تم تو ان دونوں حادثین یعنی قابل او مقبول کی علت کو حادث قرار دیتے ہو بعد اس کے کہ وہ معدوم تھا یعنی وہ بتمامہ معدوم ہونے کے پیدا ہوا اوریہاں کوئی بھی ایسی شے نہیں جس نے تمام کے حدوث کو ثابت کر دیا اس لیے کہ تمام کے لیے جو فاعل ہوتا ہے اس کی حالت قبل التمام اور بعد التمام برابر ہے پس یہ امر ممتنع ہے کہ وہ اس دونوں حالتوں میں سے کسی ایک کے لیے علتِ تامہ ہو ،دوسرے کے لیے نہ ہو اور وہ سارے امور جس کو وہ فرض کرتے ہیں جس سے تمام علت حاصل ہوتا ہے وہ بھی اول کے بعد ہی حادث ہے پس تمہارے قول کی حقیقت یہ ہوئی کہ عالم کے حوادث اس کی ذات سے پیدا ہوتے ہیں باوجود یہ کہ وہ ازل سے علتِ تامہ ہیں یا یہ کہ اس کے باوجود وہ علتِ تامہ نہیں باوجود یہ کہ علتِ تامہ تو اپنے معلول کے ساتھ تامہ بنتی ہے نہ کہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد اور یہی بات تو حوادث کے عدم کا یااُن کے قدم کاتقاضہ کرتی ہے او ریہ دونوں امر مشاہدے کے خلاف ہیں اسی وجہ سے ان کے قول کی حقیقت تو یہ ہے کہ حوادث تو بغیر کسی محدث کے پیدا ہوتے ہیں ۔ ان کا حرکتِ فلک کے بارے میں قول حرکتِ حیوان کے بارے میں قدریہ کے قول کے مشابہ ہے اس لیے کہ قدریہ تو یہ کہتے ہیں کہ حیوان قادر ہے اور ارادہ کرنے والا ہے اور وہ بغیر کسی ایسے سبب کے جو فعل کے لیے موجب ہو ،فعل صادرکرتا ہے بلکہ ان اسباب کی نسبت کے باوجود جو کہ حدوث کے لیے موجب ہیں یعنی حدوث کے لیے سبب ہیں تو ان کے ساتھ ہی وہ فعل کرتا ہے بلکہ ان کے نزدیک تو اِس حادث اور اُس حادث کی طرف ان اسباب کی نسبت برابر ہے جو کہ حدوث کے لیے موجب ہے اس لیے کہ بے شک ان کے نزدیک وہ تمام امور جس پر مومن ایمان لاتا ہے اور اس کے ذریعے وہ کوئی اطاعت گزار مطیع کہلاتا ہے بتحقیق وہ ہر اس شخص کے لیے حاصل ہے جس کو ایمان اور طاعت کا حکم دیا گیا ہے لیکن فرمان بردارمومن نے ایمان اور طاعت کو ترجیح دی بغیر کسی ایسے سبب کے جس کے ساتھ وہ مختص ہے اور اس کے ذریعے رجحان (ایمان کو کفر پر)حاصل ہوا ہے اور کافر (کی شان )تو (مومن کے )بالعکس ہے ۔