کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 268
جس طرح کہ انسان اپنی ذات میں اس کو پاتا ہے جب سفر میں چلتا ہے مثلا مکہ کی طرف یا کسی اور مکان کی طرف تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایک مقتضِی عام کا مقتضیٰ بھی کبھی عام ہوتا ہے لیکن استعدادات اور اثر کو قبول کرنے والے قوابل کے تاخر کی وجہ سے وہ متاخر ہوتا ہے جبکہ وہ غیر سے صادر ہوں یعنی ذات سے خارج ہوں جس طرح کہ طلوعِ شمس میں اس لیے کہ شمس کی طرف سے فیض عام ہے لیکن وہ موقوف ہے اثر قبول کرنے والے قوابل کے استعداد پر اور موانع کے ختم ہونے پر اسی وجہ سے اس کی تاثیر مختلف ہوتی ہے اور قوابل اور شروط کے اعتبار سے متاخر ہوتی ہے اور یہ (اثر کا اختلاف اور کمی زیادتی اور تقدم وتاخر )اس کی ذات میں سے نہیں (بلکہ اثر قبول کرنے والے محل کے قبولیت کی صفت کے اختلاف کی وجہ سے ہے )
اسی طرح وہ یہ کہتے ہیں کہ عقل فعال دائم الفیض ہے یعنی اس کا فیض اور تاثیر دائم ہے اسی سے وہ تمام اشیاء جواس سے فیض حاصل کرتی ہیں جو کہ عالم میں ہیں یعنی جسمانی اور نفسانی صورتیں ۔پس اسی سے علوم اور ارادات کا فیض مستفاد ہوتا ہے اور اس کے علاوہ دیگر امور کا اوروہ ان کے نزدیک قمر کے فلک کے ماتحت جتنا کچھ ہے اس کا رب ہے لیکن وہ ان کے ہاں مستقل نہیں بلکہ اس کا فیض استعدادات اور ان قوابل کے حصول پر موقوف ہے جو حرکاتِ افلاک کے ساتھ حاصل ہوتا ہے اور وہ حرکات جو قمر کے فلک سے سے بھی اوپر ہیں وہ اس کی ذات سے مستفاد نہیں بلکہ اس کے غیر سے ہیں اوران کے نزدیک یہ عقل ہی رب البشر ہیں اور اسی سے وحی اور الہام کا فیضان ہوتا ہے تبھی تو اس کو جبریل کا نام دیتے ہیں اور کبھی جبریل کو وہ ذات قرار دیتے ہیں جو پیغمبر کے نفس کے ساتھ قائم ہوتا ہے یعنی صورتِ خیالیہ اوریہ سارا کلام انتہائی درجے کا باطل کلام ہے جس طرح کہ اس کو اپنے مقام پر تفصیل سے بیان کیا گیا ۔
لیکن یہاں تو مقصود یہ ہے کہ وہ واجب الوجود کے فیض کی مثال اس عقلِ فعال اور سور ج کی فیض کے ساتھ دیتے ہیں حالانکہ یہ باطل تمثیل ہے ا س لیے کہ یہاں فیضان کرنے والا اپنے فیض میں اور اثر پہنچانے میں مستقل بذاتہ نہیں بلکہ اس کا فیض تواس شے پر موقوف ہے جواس کی ذات ایک غیر اس کے اندر پیدا کرتا ہے یعنی استعداد اور قبول اور اس کے غیر کا جو احداث ہے وہ تو اس کی ذات کے علاوہ اورشے کی تاثیر ہے اور رب العالمین کے حق میں تو وہ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ مخلوق پر فیضان میں اور تاثیر میں اس کے لیے کوئی شریک نہیں اور اس کا کوئی بھی فیض غیر کے فعل پر موقوف نہیں بلکہ وہ قابل (اثر قبول کرنے والے )کا بھی رب ہے اور جو اثر قبول کیا جائے یعنی مقبول اس کا بھی رب ہے ،مستعد اور مستعد لہ دونوں کا رب ہے اور اُسی کی ذات سے استعداد ہے اور اسی کی ذات سے امداد یعنی فیض ہے اور جب اس قول کے بعد وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ علتِ تامہ ازلیہ ہے اور اس کا فیض عام ہے لیکن وہ (اس کا فیض )قوابل اور استعدادات کے پیدا ہونے پر موقوف ہے چاہے وہ فلکی اشکال یا اختلافِ کوکبیہ کے ساتھ ہو یا س کے علاوہ کسی اور کے ساتھ ہو ۔