کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 267
دھیرے دھیرے نئے پیدا ہو رہے ہیں ۔ پس یہ قدرت اور ارادے جو متجدد ہیں اور ہر آن اور لحظہ میں نئے پیدا ہو رہے ہیں اور تقاضہ کر رہے ہیں اس مسافت کے طے کرنے کا تو یہ وہ کلی ارداے اور استعداد ہیں جو اس کی ذات میں پائی جاتی ہیں اور پہلی مسافت کا طے کرنا اس (مسافت ثانیہ کے طے کرنے )سے مانع تھا پس جب وہ مانع زائل ہوا تو مقتضی نے اپنا عمل کر لیا پس اس کا ارادہ اور اس کی قدرت مکمل ہو گئی اور اس نے پھر مسافت کو طے کر لیا۔ یہی حال ہے پتھر کی اوپر سے نیچے کی طرف حرکت کا؛ جب بھی وہ نیچے آتا ہے تو اس کے اندر ایک ایس نئی قوت پیدا ہوتی ہے جو اس سے پہلے اس میں نہیں تھی۔یہی حال سورج اور ستاروں کی حرکت کا ہے ۔خصوصاً اس لیے کہ وہ کہتے ہیں : ’’ اس کی حرکت اختیاری ہے؛ بوجہ ان تصوراتِ جزئیہ اور اراداتِ جزئیہ کہ جو دھیرے دھیرے پیدا ہوتے ہیں ۔ اسی طرح ان کے آئمہ نے بھی اس بات کی تصریح کی ہے؛ یعنی ارسطواور اس کے دیگر اتباع نے اس لیے کہ اس کی حرکت ان کے نزدیک حرکتِ ثانیہ ہے۔ پس حرکت کے جزء ثانی کا مقتضی تام حرکت ِ اولیٰ کے بعد پایا گیا جبکہ اس سے پہلے مقتضی تام موجود نہیں تھا اور وہ تو متحرک کی ذات کے ساتھ قائم ہے یا محرک کے ساتھ قائم ہے۔ اور یہ وہی نفس ہے جس کے اندر تصورات اور جزئی ارادات اور قوتِ جزئیہ یہ نئے نئے پیدا ہو رہے ہیں دھیرے دھیرے اور جس کی وجہ سے وہ دھیرے دھیرے حرکت کرتا ہے جیسے کہ چلنے والے شخص کی حرکت پس ان کے لیے یہ بات ممکن نہیں کہ وہ کسی ایسے محرک یا متحرک کو ذکر کریں جس کی حالت حرکت سے پہلے اور حرکت کے بعد دونوں حالتوں میں برابر ہو اور اس کی حرکت بھی شیئاً فشیاً صادر ہو اس لیے کہ یہ ایسا امر ہے جس کے لیے کوئی خارج اور نفس الامر میں کوئی وجود نہیں اور عقلِ صریح اس بات کو محال سمجھتا ہے اس لیے کہ کوئی بھی حادث صرف اسی وقت وجود وجود میں آتا جب اُس کا موجب تام اور علتِ تامہ موجودہوتی ہے ۔ اگر تو چاہے تو یوں بھی کہہ سکتا ہے کہ اس کے وجود کو عدم پر ترجیح حاصل نہیں ہوتی مگر اس کی صورت میں کہ اس کا مرجح تام وجود میں آجائے جو اس کے وجود کو مستلزم ہو اور مسلمان تو یہ کہتے ہیں کہ اللہ جس کو چاہے تو وہ موجود ہو جاتا ہے اور جس کو نہ چاہیں تو وہ موجود نہیں ہوتا پس اگر حرکت ثانیہ کا مرجح تام حرکتِ اولیٰ کے وقت حاصل تھا تو اس کا حصول حرکتِ اولیٰ کے وقت بھی ضروری تھا بلکہ اس کا حصول کسی مرجح تام کے حصول کے وقت ہی تام ہوتا ہے اور یا خواہ وہ زماناً اس کے ساتھ متصل ہو اور جب مرجح تام کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ وہ وجود میں آجائے بعد اس کے کہ وہ موجود نہیں تھا تو یہ بات بھی ضروری ہے کہ حرکت کے لیے کوئی ایسا سببِ حادث بھی پایا جائے جو اس امرکو ثابت کرتا ہو کہ وہ اس کو پیدا کرنے والا بنے بعد اس کے کہ وہ معدوم تھا یہی حال اس سببِ اول کا ہے جو حرکت کے قریب ہے ۔ اگرآہستہ آہستہ حادث ہونے والی حرکت کے لیے فاعل ارادہ تامہ اور کلیہ ہے تو وہ اکیلے ہی کافی ہے۔ بلکہ ایک ایسے دوسرے ارادہ جزئیہ کا ہونا بھی ضروری ہے جو اس کے ساتھ مقارن اور متصل ہو یعنی حادث کے ساتھ