کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 266
وہ فلاسفہ جو ان کے علاوہ ہیں اوران سے بھی زیادہ اعلیٰ ہیں جیسے ابو البرکات اور ان کے علاوہ دیگرفلاسفہ وہ یہ کہتے ہیں کہ تغیرات کا سبب تو وہ اارادات متجددہ ہیں جو اللہ کی ذات کے ساتھ قائم ہیں یعنی وہ ارادات جو دھیرے دھیرے وجود میں آتی ہیں بلکہ ادرکات بھی؛ جیسے کہ اس نے اپنی کتاب ’’المُعْتَبَرْ‘‘ میں اس کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ابن سینا اور ان کے امثال تو کہتے ہیں کہ :وہ عالم کے لیے بذات خود علتِ تامہ ازلیہ ہیں بشمول ان حوادث ِ متجددہ کے جو عالم میں پیدا ہوتے ہیں اور یہ کہ حادثِ اول شرط ہے اور اس نے حادثِ ثانی کے لیے استعداد اور قابل (اثر قبول کرنے والا) کو پیدا کر دیا اور یہ اانتہائی درجے کا فاسد قول ہے اور یہ قول ان کے اصول کیساتھ انتہائی درجے کے تناقض اور تصادم پر مشتمل ہے اور وہ (قول یہ ہے کہ )حادثِ ثانی کی جو علت ہے اس کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ وہ اس کے وجود کے وقت بتما مہ موجود ہو اور حادثِ ثانی کے وجود کے وقت تو فاعلِ اول کے ہاں کوئی ایسا امر متجدد نہیں تھا جس کو وہ کرتا سوائے اول کے عدم کے اور محض اول کے عدم (ناپیدا ہونے )نے تو ان کے نزدیک فاعل کے لیے کوئی قدرت اور ارادہ پیدا نہیں کیا اس لیے کہ اول تو ان کے نزدیک اس کے ساتھ صفات اور افعال میں سے کوئی شے بھی اس کی ذات کیساتھ قائم نہیں اور نہ اس کے لیے مختلف قسم کے احوال ثابت ہیں پس کیسے یہ بات متصور اور ممکن ہو سکتی ہے کہ اس سے ثانی صادر ہو جائے بعد اس کے کہ اس کا صدور اس سے ممتنع تھا اور اس کا حال متجدد نہیں ہوا بلکہ وہی حال رہا(یعنی جو حال اول کے احداث کے وقت تھا وہی ثانی کے احداث کے وقت بھی ہے ) صرف ایک امر عدمی نیا وجود میں آیا جس نے اس کے لیے کوئی قدرت یا ارادہ یا علم کا اضافہ یا اس کے علاوہ اور کوئی شے پیدا نہیں کیا۔ یہ اس صورت کے بخلاف ہے جس کی یہ مثال دیتے ہیں انسان کی حرکت کے ساتھ جو کہ ارادۃً یا طبعاً ہو اس لیے کہ بے شک جب کوئی متحرک مسافتِ اولیٰ کو طے کرتا ہے تو اس کو ایک ایسی قدرت حاصل ہو جاتی ہے جو اس سے پہلے اس کو حاصل نہ تھی اور اس کے ہاں ایک ایسا ارادہ پیدا ہو جاتا ہے جو اس حال سے پہلے نہ تھا جس طرح کہ انسان اپنی ذات میں پاتا ہے جب کہ وہ چلنے لگتا ہے اس لیے وہ اپنے نفس میں مسافتِ بعیدہ کو طے کرنے سے عجز پاتا ہے یہاں تک کہ وہ اس کو پہنچ جائے اور وہاں تک پہنچنے سے پہلے اس کے طے کرنے کا پختہ ارادہ کرنے والا ہوتا ہے جب وہ پہنچ جاتا ہے تو وہ اس حال میں اس مسافت کے طے کرنے کا ارادہ کرنے والا نہیں ہوتا پس جب وہ پہنچ جاتا ہے تو وہ اس کے طے کرنے کا ارادہ کرنے والا ہو جاتا ہے اور پھر اس کے طے کرنے پر قادر بھی بن جاتا ہے اور پکے ارادے اور قدرتِ تامہ کی صورت میں مراد کا پایا جانا ضروری ہے۔ پس ایسی صورت میں جو کچھ مسافت کو طے کیا جاتا ہے وہ محض اس حرکت کے معدوم (متلاشی )ہونے کی وجہ سے نہیں جس کے ذریعے مسافتِ اولیٰ کو طے کیا تھا بلکہ (مسافت ثانیہ کو )اس قدرت اور ارادے کی وجہ سے (طے کیا )جو