کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 265
انتہاء نہیں ہے یعنی علتِ تامہ ازلیہ سے تراخی اور یہ امر نا ممکن ہے کیوں کہ ہر حادث تو عالم کے اندر ہی وجود میں آتا ہے اور وہ ازل سے ایک ایسے تاخر کے ساتھ متاخر ہوتا ہے جس کی کوئی انتہاء نہیں ۔
پس اس کی اگر اس کی علتِ تامہ ازل میں ثابت ہو جائے تو معلول اپنی علتِ تامہ سے ایسے تاخر کے ساتھ متاخر ہو گا جس کی کوئی انتہاء نہیں اور علت تامہ اور اس کے معلول کے اندر تو اصلا کوئی فصل اور جدائی نہیں ہوتی بلکہ نزاع تو اس میں ہے کہ کیا اس کے ساتھ کوئی زمان یا اس کے بعد کوئی زمان پایا جاتا ہے یا وہ زمان کے اعتبار سے اس کے ساتھ ہوتا ہے یا زمان کے اعتبار سے اپنی علت کے بعد ہوتا ہے یا اس کے ساتھ ایک جزکی طرح ہوتاہے تو یہ ایک ایسی بات ہے کہ لوگ اس میں کلام کرتے ہیں کیوں کہ وہ اس بات پر متفق ہیں کہ وہ اس پرتاخرعقلی کے ساتھ متاخر ہے اور اس پربھی (متفق ہیں )کہ وہ اس سے منفصل نہیں ہوتا یعنی معلول علت سے لیکن اختلاف اس میں ہے کہ کیا وہ اس کے ساتھ زمان کے اعتبار سے متصل ہے اور اقتران زمانی اس کو حاصل ہے تو یہ لوگوں کے ہاں محل نظر ہے اور محل خلاف ہے ، مقصود تو یہاں یہ بات ہے کہ عالم میں جو شے بھی حادث ہے تو اس کی وہ علتِ تامہ جو اس کو مستلزم ہوتی ہے وہ اس سے پہلے تام نہیں ہوتی اس طور پر کہ ان کے درمیان کوئی انفصال پایا جائے پس وہ کیسے اس پر ایسے تقدم کے ساتھ متقدم ہوگی جس کی کوئی انتہاء نہیں بلکہ جو بات یہ کہتے ہیں اس سے زیادہ سے زیادہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ ان اشیاء کے لیے علت تامہ ازلیہ ہیں جو عالمِ میں قدیم ہیں جیسے کہ افلاک ۔
رہی وہ اشیاء جو عالم میں حادث ہیں تو ان کے لیے وہ ان کے حدوث کے وقت علتِ تامہ بنتے ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ اول کا حدوث دوسرے کے حدوث میں شرط ہے جیسے چلنے والا شخص زمین کے ایک حصے کو دوسرے کے بعد طے کرتا ہے جیسے کہ حرکتِ شمس جس کے ذریعے تو ایک مسافت دوسرے کے بعد طے کرتا ہے اسی طرح کوئی بھی متحرک جسم مسافتِ ثانیہ کو اس وقت تک طے نہیں کرتا جب تک کہ مسافتِ اولیٰ کو طے کرے ،یعنی مسافت ِ اولیٰ کو اپنی حرکت کے ساتھ طے کرنا مسافت ثانیہ طے کرنے میں شرط ہے اور ثانی مسافت کے طے کرنے کے لیے جو علتِ تامہ ہے وہ تو پہلی مسافت کیلئے بننے والی علت تامہ کے بعد وجود میں آئی اور یہی ان کے اقوال کا انتہائی درجے کا مقصود ہے اور اس کو وہ مختلف عبارات سے تعبیر کرتے ہیں تبھی تو یہ کہتے ہیں کہ علت اولیٰ کا فیض ،مبدِء اولی کا فیض اور واجب الوجود یعنی اللہ کا فیض سب دائم ہیں لیکن وہ متاخر ہوتا ہے تاکہ استعداد اور فیض کا اثر قبول کرنے کے لیے ایک قابل (اثر قبول کرنے والا)پیدا ہو جائے ۔
اس طرح استعداد کا سبب پیدا ہو جائے یہ اکثروں کی رائے ہے اور اکثر تو اس کے قائل ہیں کہ یہ حرکتِ فلک ہے پس ان لوگوں کے نزدیک عالم کے تغیرات کے لیے سوائے حرکتِ فلک کے اور کوئی سبب نہیں جیسے کہ ابن سینا اور ان کے امثال کہتے ہیں اور یہ ارسطوکے اصحاب کے ہاں معروف ہے ۔