کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 264
آئے گی کہ وہ موجود نہ ہو یہاں تک کہ خود وہ موجود ہو جائے اور وہ دوسرا موجود نہ ہو یہاں تک کہ پہلا موجود ہو جائے یعنی ہر ایک کا وجود دوسرے کے وجود پر موقوف ہو جائے گا لہٰذا یہ اس کو مستلزام ہوا کہ ان دنوں میں سے کوئی ایک بھی موجود نہ ہو یہاں تک کہ دوسرا موجود ہوجائے قبل اسکے کہ پہلا موجود ہو تو اجتماع نقیضین لازم آئے گا۔ اگر کہا جائے کہ وہ متغیر ہونے والا مفعول جو کہ اول ہے اُس نے فاعل کے اندر ایک تغیر پیدا کیا اور اس تغیر نے تغیر ثانی کو پیدا کر لیا تو جواب میں کہا جائے گا کہ وہی اول تو ایک ایسے فعل سے پیدا ہواہے جو فاعل کے ساتھ قائم ہے پس فاعل اپنے ما سوا تما م حوادث متغیرہ کا فاعل ہے اولاً بھی اور آخراً بھی اور اس میں اس کے غیر نے ہر گز کوئی تاثیر نہیں کی ۔ اگر کہا جائے کہ اس کا مفعولِ ثانی تو مشروط ہے مفعولِ اول کے ساتھ پس وہ اول اور ثانی دونوں کے لیے فاعل ہے لہٰذاوہ اپنے فعل میں غیر کی طرف بالکل محتاج نہیں ہے ۔ نہ اس میں اس کی ذات کے علاوہ کسی شے نے اثر کیاہے اور یہ ایسا ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے بندوں کے دل میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ وہ اسے پکاریں اور اس سے دعا کریں تو وہ ان کی دعا کو قبول کریں گے اور ان کے دل میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ اس کی اطاعت کریں تو وہ ان کی اطاعت کر لیتے ہیں جس کے نتیجے میں اس کو ثواب دیتے ہیں اجر دیتے ہیں پس اللہ سبحانہ وتعالیٰ اجابت( دعا قبول کرنے )اور اثابت (ثواب دینے )کے فاعل ہیں جس طرح کہ اس نے پہلے بندوں کو دعا مانگنے والے اور اس کی اطاعت کرنے والے بنا دیا اور اس وقت وہ قطعاً کسی غیر کی طرف محتاج نہیں تھا اور جس نے بھی ان امور میں بغور سوچا تو اس کے لیے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے ان افعالِ اختیاریہ کے ذریعہ جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہیں ،تمام اعیان ، صفات اور افعال میں سے ہر شے کے خالق ہیں جس طرح انبیاء کے بہت سے نصوص اس پر دال ہیں اور امت کے سلف اور آئمہ اس پر متفق ہیں اور ان کے ساتھ موافقت کی ہے فلاسفہ قدماء کے بڑے بڑے آئمہ نے اور یہ ایک ایسی بات ہے جو اللہ کی ذات کے ماسوا ہر شے کے حدوث کو واضح کرتی ہے اور اس بات کو بھی (واضح کرتی ہے )کہ یہ معلولِ قدیم کے لیے علتِ ازلی نہیں ہے باوجود کہ وہ فاعلیت کے اعتبار سے بالکل دائم ہے اور اس کے فاعل کے دوام سے یہ امر لازم نہیں آتا کہ اس کے ساتھ کوئی مفعولِ معین قدیم بھی ہو بلکہ یہ تو انتہائی درجے کی باطل بات ہے اور وہ فلاسفہ جو ایک ایسی ذات سے عالمِ قدیم پیدا ہونے کے قائل ہیں جو عالم کیلئے موجب بذاتہ ہے جس کو یہ علتِ تامہ ازلیہ کہتے ہیں ،وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ازل میں ہر حادث کے لیے علت تامہ نہیں اس لیے کہ اس کا تو کوئی شخص بھی قائل نہیں ہے کیوں کہ علتِ تامہ تو وہی ہے جو اپنے معلول کو مستلزم ہو اور اسکے متصل بعد ہو پس جب معلول حادث ہوا بعد اس کے معدوم تھا تو اس کا مستلز م بھی تو پھر ازلی نہیں رہا کیوں کہ اس میں تو پھر معلول کا اپنی علت سے زمان کے اعتبار سے تاخیر لازم آئے گی ایسی تراخی جس کی کوئی