کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 263
والا)اور محدث کے پیدا ہوتے ہیں کیوں کہ تمہارے نزدیک واجب الوجود کی ذات میں کوئی ایسی صفت نہیں پائی جاتی جو کسی فعلِ حادث کے لیے موجب بنے بلکہ اس کی حالت تو حادث کے وجود سے پہلے ،اس کے حادث ہوتے وقت اور اس کے حدوث کے بعدتینوں احوال میں برابر ہے اور کسی فاعل کا امورِ حادثہ مختلفہ کو اس طرح وجود ینا کہ اس فاعل کی حالت ان حوادث کے موجود ہونے سے پہلے ،ان کے وجود میں آتے وقت اور اس کے بعد رتینوں حالتوں میں برابر ہوتو یہ اس بات سے زیادہ أبعد ہے کہ وہ صرف کسی ایک حادث کو پیدا کرے باوجود یکہ اس کی حالت تینوں حالتوں میں برابر ہو ۔ ٭ اگر کہا جائے کہ اس کے فعل کا تغیر مفعولات کے تغیرات کی وجہ سے ہے۔ ٭ تو جواب میں کہا جائے گا کہ اس کا فعل (یعنی احداث )اگر تمہاری رائے کے مطابق وہی مفعولات ہیں جس طرح کہ ابن سیناا ور اس کے امثال دیگر فلاسفہ جہمیہ اس کے قائل ہیں جو صفات اور فاعل کی نفی کرنے والے ہیں تو پھر تو متغیر شے اس سے منفصل اور جدا ہونے والی اشیاء ہیں اور وہی تو مفعولات ہیں اور یہاں مفعولات کے علاوہ کوئی ایسا فعل نہیں پایا جاتا جس کو تغیر کے ساتھ موصوف کیا جائے پس اس کے تغیر کاسبب کیا بنا اور اس کے اختلاف کا سبب کیا بنا اور اس طرح ان حوادث کے حدوث کا سبب کیا بنا باوجود یکہ فاعل حالتِ واحدہ پر قائم ہے اور صریح عقل کے اعتبار سے اس قول کا فساد دوسروں کے اس قول کے فساد سے زیادہ ظاہر ہے جس پر تم نے نکیر کیا ہے ۔ اگر اس کا فعل اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے جس طرح کہ افعالِ اختیاریہ کے مثبتین کہتے ہیں یعنی اہل ملل کے بعض آئمہ اور فلاسفہ متقدمین اور متاخرین میں سے ہیں تو یہ بات معلوم ہے کہ مفعولات کا تغیر ہی ان افعال کا سبب ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی تمام مفعولات (کی ذوات )اور ان کے تغیرات کو پیدا کرنے والے ہیں پس یہ بات ممتنع ہے کہ وہی (مفعولات )خود مؤثر ہوں اس کے فعل کے تغیر میں جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اس لیے کہ یہ تو اس امرکو مستلزم ہے کہ وہ معلول جومخلوق اور مصنوع ہے وہی اس خالق ذات میں مؤثر بنے جو کہ صانع ہے یعنی بنانے والا ہے جس کو وہ علتِ تامہ کہتے ہیں اور یہ تو دورِ ممتنع کو مستلزم ہے اس لیے کہ دو شئین میں سے ہر ایک کا دوسرے میں مؤثر ہونا بغیر اس کے کہ وہاں کوئی ایسا امر ثالث پایا جائے جو ان کے غیر ہو اور ان دونوں میں مؤثر ہو اور یہ وہ دور ہے جو ممتنع ہے اس لیے کہ دو فاعلین میں سے کوئی ایک دوسرے میں تاثیر اور عمل نہیں کرتا یہاں تک کہ وہ دوسرا اس میں تاثیر اور عمل کرے جس طرح کہ اس صورت میں ہے تو لہٰذا وہ تغیر جو حادث ہے وہ اس وقت تک پیدا نہیں ہوتا جب تک کہ دوسرا اس کو پیدا کرے بوجہ اس کے کہ وہ فعل اس کے ساتھ قائم ہے ۔ اگر وہ فعل اس کی ذات کے ساتھ قائم نہ ہو یہاں تک کہ وہ دوسرا فاعل اس کو پیدا کرے تو یہ بات لازم