کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 262
بھی ہوں اور وہ احوال اس کی ذات کے ساتھ قائم ہو ں جو اس کے حوادث کے لیے فاعل ہونے کو ثابت کرتے ہیں تو خواہ وہ بالواسطہ حادث ہوں یا بغیر واسطہ کے (یعنی ان دونوں امور کا اجتماع ممتنع ہے )نیز یہ بھی کہ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ جس طرح یہ کہتے ہیں کہ اس (پیدا کرنے والی ذات )کا حال حادثِ معین کو پیدا کرنے سے پہلے اور اسی طرح معین شے کو پیدا کرتے وقت اور اسی طرح معین شے کو پیدا کرنے کے بعد تینوں احوال میں اس کی حالت ایک جیسے ہے تو پھر تو کسی معین چیز کا احداث ممتنع ہوا اور یہ بات ممتنع ہوئی کہ وہ کسی بھی شے کو پیدا کر لے ۔اور یہ بھی ملحوظ رہے کہ اس کا اول کو پیدا کرنا دوسرے کے احداث اور اس کو پیدا کرنے سے اولیٰ اور احق نہیں (یعنی دونوں حادث اس کی صفت احداث کے ساتھ ایک ہی نسبت رکھتے ہیں کسی ایک کو دوسرے پر اولویت یا فوقیت حاصل نہیں )اور تخصیص کا کوئی سبب بھی نہیں پایاجارہایعنی اس کی قدرت اور اس کی وصف کے ساتھ اول کی تخصیص دوسرے کی بہ نسبت اولیٰ نہیں بشرطیکہ فاعل سے کوئی ایسا سبب صادر نہ ہو جو (مقدار یا وصف کیساتھ )تخصیص کو ثابت کرتا ہو ۔
انہوں نے تو ان لوگوں پرنکیر کی ہے جو اہل نظر میں سے ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے فیض صادر ہوا بعد اس کے کہ وہ فاعل نہیں تھا اور انہوں نے کہا کہ بدیہی عقل سے یہ بات معلوم ہے کہ جس ذات نے کوئی فعل انجام دیا بعد اس کے کہ وہ فاعل نہیں تھا تو یہ امرضروری ہے کہ اس کے لیے (پیدا کرنے کے واسطے ) اسباب میں سے کوئی سبب دھیرے دھیرے جدت کو اختیار کرتا ہو؛ خواہ وہ قدرت یا ارادہ ہو یا علم یا مانع کا زوال یا اس کے علاوہ اور کوئی بھی سبب ۔
پس ان کو جواب میں کہا جائے گا کہ بدیہی عقل کے ذریعے تو یہ بات بھی معلوم ہے کہ جس نے کسی ایک حادث کو پیدا کرلیا بعد اس کے کہ اس کا وہ فاعل نہیں تھا تو یہ ضروری ہے کہ اس کے لیے کوئی ایسا سبب متجدد ہو جو اس کے فعل (احداث )کا تقاضہ کرتا ہو جبکہ تم نے تو دوسروں پر اس بات میں نکیر کی ہے کہ وہ بغیر کسی سببِ حادث کے فعل کی ابتدا کے امکان کے قائل تھے یعنی سبب کے بغیر کسی فعل کی ابتدا ہو سکتی ہے اور اب تم نے خود بغیر کسی سبب حادث کے مفعولاتِ حادثہ کے دوام کا التزام کر لیا (یعنی اس کے قائل ہو گئے )پس جس بات کے تم قائل ہوئے ہو اور تم نے اس کا التزام کیا ہے یعنی بغیر کسی سبب کے حوادث کا حدوث یہ تو اس بات سے بہت بڑا اور زیادہ شنیع ہے جس کی تم نے نفی کی ہے بلکہ تمہارا قول تو اس بات کو مستلزم ہے کہ حوادث کے لیے ابتداء ً کوئی فاعل ہی نہیں بلکہ بغیر فاعل کے حادث ہوتے ہیں کیوں کہ حوادث کو پیدا کرنے والی ذات تمہارے نزدیک حرکتِ فلک ہے اور حرکتِ فلک تو ایک نفسانی حرکت ہے جو ان امور کی وجہ سے متحرک ہوتی جو اس میں دھیرے دھیرے پیدا ہوتی ہیں یعنی تصورات اور یکے بعد دیگرے پیدا ہونے والے ارادے اور اگرچہ وہ ایک تصورِ کلی اور ارادہ کلیہ کے تابع ہیں پھر تمہارے قول کی بنیاد پر وہ تصورات ، ارادے اور حرکات بغیر کسی موجد (وجود دینے