کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 261
کسی بھی شے کو پیدا کرنے والی ذات کے بارے میں یہ بات ممتنع ہے کہ وہ اس کو اس کے لوازم کو وجود دینے کے بغیراز سرِ نو(ابداع) وجود دے اور اس کے لوازم کے بارے میں یہ بات ممتع ہے کہ اس کا وجو د ازل میں پایا جائے پس عالم میں کسی بھی شے کاا زل میں وجود ممتنع ٹھہرا ۔ اگرکہا جائے کہ وہ فلک کے لیے بشمول اس کی حرکت کے علتِ تامہ ازلیہ ہیں ؛ تو یہ بات لازم آتی ہے کہ وہ فلک کے لیے بمع حرکت کے علتِ تامہ ازلیہ ہوپس اس کی حرکت ازلی ٹھہرے گی اور حرکت تو دھیرے دھیرے وجود میں آتی ہے لہٰذا یہ ممتنع ہوا کہ اس کی ساری حرکت ازلی ہو اور اگر کہا جائے کہ وہ صرف فلک کے لیے علتِ تامہ ازلیہ ہیں نہ کہ اس کی حرکت کے لیے اور اس کی حرکت تو ایک دوسرے مبدع(ازسر نو پیدا کرنے والے ) کی طرف محتاج ہے حالانکہ اُس اللہ کے علاوہ اور کوئی مبدع نہیں ہے ۔ اگر کہا جائے کہ وہ حرکت کے لیے علت رفتہ رفتہ یعنی شیئا ًفشیئاً بنتے ہیں اور وہ ازل میں حرکت کے لیے علتِ تامہ نہیں ہیں یعنی وہ ازل میں حرکت کے لیے علتِ تامہ بنتے ہیں اس کے وجود کے اعتبار سے یعنی جتنا جتنا وجود میں آتا ہے اس کے لیے علت بنتا ہے پس اس کا علت بننا اور اس کی فاعلیت اور اس کا ارادہ یہ حادث ہوا بعد اس کے کہ وہ نہیں تھا یعنی معدوم تھا پس یہ بات ممتنع ہو ئی کہ وہ ازل میں علتِ تامہ بنے اور یہ قول یہ ایسا ظاہر اور واضح ہے کہ اس میں وہ شخص اختلاف نہیں کر سکتا جو اس کو سمجھے اور یہ ایک ایسی بات ہے کہ جو ہے اس بات کو بیان کرتی ہے اور واضح کرتی ہے کہ اس ذات کا علتِ تامہ ازلیہ ہونا ممتنع ہے ہر ہر موجود کے حق میں اور یہ کہ اس کا علتِ تامہ ہونا فلک کے لیے سمیت اس کی حرکت کے ممتنع ہے اور وہ یہ نہیں کہتے کہ وہ ازل میں ہر موجود کے لیے علت ہیں بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ ازل میں ان اشیاء کے لیے علت ہیں کہ جو اپنی ذات کے اعتبار سے قدیم تھے جیسے کہ افلاک اور وہ ہمیشہ نوعِ حوادث کے لیے علت بنتے ہیں اور وہ حادث معین کے لیے علتِ تامہ بنتا ہے بعد اس کے کہ وہ علتِ تامہ نہیں تھا یہی ان کے قول کی حقیقت ہے ۔ پس ان کو جواب میں کہا جائے گا کہ اس کا کسی شے کے لیے عدم (ناپید ہونے )کے بعد علتِ تامہ ہونا بغیر کسی ایک ایسے سببِ حادث جس کی وجہ سے وہ پیدا ہواہو یہ بذاتِ خود ممتنع ہے کیوں کہ حوادث کے لیے تو اس (اللہ تعالیٰ )کی ذات کے علاوہ کوئی اور پیدا کرنے والا نہیں لہٰذایہ امرممتنع ہوا کہ اس کے علاوہ کوئی اور ذات ہوجو اس کی فاعلیت(تاثیر) اور علت بننے کو وجود دے اور اس کا کسی معین شے کے لیے فاعل بننے کو وجود نہیں دیتا مگر اس کی ذات ہی ،پس لازم آیا کہ وہی محدث اور پیدا کرنے والے ہیں کیوں کہ معین اشیاء کے لیے وہی علت ہے اور فاعل بھی وہی ہیں اور یہ فاعلیت موجود ہوئی بعد اس کے کہ وہ نہیں تھی (معدوم تھی )پس یہ بات ممتنع ہوئی کہ وہ کسی علتِ تامہ ازلیہ سے صادر ہوں کیوں کہ علتِ ازلیہ تو اپنے معلول کے ساتھ مقارن ہوتی ہے پس یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ امر ممتنع ہے کہ وہ کسی شے کے لیے فاعل بنے بعد اس کے کہ وہ نہیں تھا حالانکہ وہ علتِ تامہ ازلیہ