کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 258
کوئی شے بھی کوئی جز بھی اس سے مؤخر نہ ہو اور جب یہ بات مشاہدہ سے ثابت ہے کہ اس کے مفعولات میں سے کوئی شے (لاعلی التعیین )اس سے مؤخر ہے اگرچہ وہ مفعول بالواسطہ ہو تو یہ بات معلوم ہوئی کہ وہ ازل میں علتِ تامہ نہیں اور یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ وہ علت بنا ہے بعد اس کے کہ وہ علت نہیں تھا ۔
اگر کہا جائے کہ حرکتِ فلکیہ ہی حوادث کے حدوث کا سبب ہیں ۔
تو جواب میں کہا جائے گا کہ: یہ بھی ایک ایسی بات ہے جس کا بطلان معلوم ہے کیوں کہ وہ حرکت جو دھیرے دھیرے حادث ہے اس کے بارے میں یہ بات ممتنع ہے کہ وہ اس کی علت کے ساتھ ازل میں مقارن ہو پس یہ بات معلوم ہو گئی کہ حوادث کے حدوث کا موجب اورسبب وہ علت تامہ ازلیہ نہیں بلکہ ضروری ہے کہ رب تعالیٰ ہی افعال کے ساتھ متصف ہیں اور وہی اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے دھیرے دھیرے بسبب اس ارادے کے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اوراس سے وہی اشیاء پیدا ہوتی ہیں جو حادث ہوتی ہیں جیسے کہ اس کی وہ مشیت جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور اس کے وہ کلمات جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہیں اور اس کے وہ افعال جو اختیاریہ اور اس کی ذات کے ساتھ قائم ہیں ۔
سوم: یہ ہے کہ حوادث کے لیے کسی محدث (پیدا کرنے والا)کا ہونا ضروری ہے اور یہ امر ممتنع ہے کہ اِن کو اُس کے علاوہ کوئی اور حادث پیدا کرے کیوں کہ اُس کے علاوہ اور کوئی رب نہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ بے شک اس حدوث کے بارے میں قول تو بعینہ اس کی ذات میں اِس قول کی طرح ہے کہ یہ کہا جائے کہ وہ دو حال سے خالی نہیں :
یا تو یہ کہ اس کی ذات ازل میں علتِ تامہ ازلیہ ہوگی یا نہیں ہوگی اور پھر وہ تقسیم لوٹ کر آئے گا اور اگر وہ یہ کہیں کہ دوسرا اس وجہ سے متاخر ہے کہ اثر قبول کرنے والے کا حدوث متاخر ہے اسی طرح وہ شروط متاخر ہیں جو فیض اور تاثیر سے پہلے اس کی ذات کے ساتھ قائم تھی۔
تو ان کو جواب میں کہا جائے گا کہ یہ تو ان چیزوں سے سمجھ میں آتاہے جب قوابل یعنی تاثیر قبول کرنے کی استعداد غیر کی طرف سے مستفادہو۔ جیسے شعاع کا حدوث شمس سے ہے۔ اور جس طرح وہ عقلِ فعال کے بارے میں کہتے ہیں ۔ اور رہی یہ صورت کہ وہ کہتے ہیں : وہی ایک ذات ہی قابل (اثر قبول کرنے والا) اور مقبول(یعنی اثر) دونوں کا خود وہی اکیلافاعل ہو ۔ اسی طرح شرط اور مشروط کا بھی وہی فاعل ہواور وہی علتِ تامہ ازلیہ ہو ان افعال کا جو اس کی ذات سے صادر ہو رہے ہیں تو یہ بات واجب اور ضروری ہے کہ اس کا معلول پورے کا پورا اس کے ساتھ مقارن ہو اور یہ بات ممکن نہیں کہ ا س سے کوئی جزء متاخر ہو کیوں کہ یہ امرممتنع ہے کہ وہ بغیر کسی شے کے پیدا کرنے کے فاعل بنے بعد اس کے کہ وہ فاعل نہیں تھا اور اس کی ذات کا کسی شے کو پیدا کرنا باوجود یہ کہ وہ