کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 257
قائل ہے اور وہ آپس میں بعض بعض سے نقل در نقل حاصل کر رہے ہیں ۔
دوم : یہ کہا جائے گاکہ یہ بات حق ہو تو پھر عالم میں حوادث کا حدوث ممتنع ہو جائے گا اور حوادث کے لیے کوئی بھی محدث اور موجب اور پیدا کرنے والا نہیں ہوگا اور یہ ان امور میں سے ہے جن کا فساد عقلِ بدیہی کے ساتھ نسبتاً زیادہ ظاہرہے کیوں کہ علت جب علتِ تامہ ازلیہ ہوئی اور اس کا معلول اس کے ساتھ مقارن ٹھہرا تو جو شے حادث ہے اگر وہ اس کا معلول ہے تو بتحقیق وہ معلول متاخر ہوا یا بعض معلول کے علتِ تامہ سے متاخر ہوا اور علتِ تامہ کے بارے میں یہ بات ممکن نہیں کہ وہ معلول سے متاخر ہو جائے نہ کل معلول سے اور نہ بعض معلول سے ،پس جو بھی شے حادث ہے ،پیدا ہونے والی ہے وہ علتِ تامہ ازلیہ کی وجہ سے حادث نہیں ہوتی اور واجب الوجود ذات تو ان کے نزدیک علتِ تامہ ازلیہ ہے پس یہ بات لازم آئی کہ اس سے کوئی بھی شے حادث نہ ہو نہ بالواسطہ نہ بلا واسطہ ۔
اس مقام پر جس بات کے ذریعے وہ عذر پیش کرتے ہیں یعنی ان کا یہ کہنا کہ حوادث کا تاخر بوجہ استعداد کے تأخرکے ہے یا اس کے امثال دوسرے فاسد اقوال تو بے شک یہ بات تو اُس چیزوں کے بارے میں کہی جا سکتی ہے جن کے وجود کی علت اور استعداد و قبول کی علت الگ الگ ہو ں جس طرح کہ سورج سے روشنی پیدا ہوتی ہے بتحقیق وہ کبھی نرم کرنے والی اور کبھی تر کرنے والی ہوتی ہے یعنی وہ پھلوں کو خشک ہونے کے بعد ان کو نرم کرتی ہے اُس رطوبت کی وجہ سے جو اس میں پائی جاتی ہے پس پانی کی رطوبت اور سورج کی گرمی آپس میں جمع ہو جاتی ہیں پس وہ پھلوں کو پختہ کر دیتی ہے اور نرم کر دیتی ہے اور کبھی ان کو خشک بھی کرتی ہے اور جس طرح کہ پھلوں کے پکنے کا عمل مکمل ہونے کے بعد ان سے رطوبت کا استمداد منقطع ہو جاتا ہے (یعنی پھر زمین سے رطوبت حاصل نہی کرتے )پس صرف حرارت رہ جاتی ہے جو کہ رطوبت میں اثر کرتی ہے پس وہ ان کو خشک کر دیتی ہے جس طرح کہ سورج اور آگ اور ان کے علاوہ دیگر گرم اجسام دوسرے اشیا ء کو خشک کر تی ہیں ۔
مقصود تو یہ ہے کہ ان جیسی امثال میں کبھی کبھی فاعل کا فعل قابل (اثر قبول کرنے والا)کے عدم استعداد کی وجہ سے متاخر ہو جاتا ہے اور اگر یہ بات فرض کر لی جائے جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں یعنی عقلِ فعال کہ اس کی کوئی حقیقت ہے تو پس بتحقیق اس کے فیض کا تاخر قوابل کے استعداد پیدا ہونے تک اس باب میں سے ہوگا ۔
رہا واجب الوجود جو کہ اپنے ماسوا سب کے لیے فاعل ہے اور وہ فاعل جس کا فعل کسی دوسرے امر پر موقوف نہیں ہے نہ اس کا استعداد نہ اس کا امداد یعنی دوسرے میں اضافہ کرنا اور اثر کرنا نہ اس کا قبول اور اس کے علاوہ تاثیرات بلکہ اس کی خود ذات ہی فعل کو مستلزم ہے پس اگر یہ بات فرض کر لی جائے کہ وہ علتِ تامہ ازلیہ ہیں تو یہ بات ضروری ہوگئی کہ اس کے پورے کا پورا معلول اس کے ساتھ مقارن ہو اور اس کے مفعولات میں سے