کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 256
بات کا قائل نہیں کہ اس کے تمام مرادات ازل میں اس کے ساتھ مقارن اور متصل ہیں بلکہ وہ تو یہ کہتے ہیں کہ عالم کے اصول یعنی بنیادی افعال اور عناصر ازلی ہیں اور اپنی ذوات کے اعتبار سے قدیم ہیں اور بے شک حرکات اور دوسرے مولدات قدیم النوع ہیں یا وہ یہ کہتے ہیں کہ اس عالم کے مواد جیسے کہ جواہرفردہ یا ہیولیٰ وہ اپنے اعیان کے اعتبار سے قدیم اور ازلی ہیں اور یہ ساری باتیں باطل ہیں کیوں کہ ان میں سے کسی بھی شے کا قدم اس بات کا مستلزم ہے کہ اس کافاعل اس کے لیے ازل ہی سے مستلزم ہو خواہ اسے ازل میں موجب بذاتہ کہا جائے یا ایسی علت تامہ قدیمہ کہا جائے جو کہ اپنے معلول کو مستلز م ہو یا یہ کہا جائے کہ وہ اپنے ارادہ ازلیہ کے ساتھ فاعل ہے ۔وہ ارادہ جو اپنے مفعول اور مراد کو ازل میں مستلزم ہوتا ہے ۔ عالم کا فاعل اصولِ عالم کے لیے علتِ تامہ ہے نہ کہ حوادث کے لیے؛پر رد: اگر کہا جائے کہ وہ عالم کے اصول کے لیے علتِ تامہ تو ہے لیکن حوادث کے لیے نہیں یا یہ کہا جائے کہ وہ ایک ایسے ارادہ ازلیہ کے ساتھ ارادہ کرنے والا ہے جو کہ ازل میں اس کی مراد کے اقتران کو مستلزم ہے لیکن وہ ارادہ ازلیہ جو مراد کو مقارن اور متصل ہے وہ اصولِ عالم کے ساتھ متعلق ہے نہ کہ اس کے حوادث سے۔‘‘ تو ان کوجواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات کئی وجوہ سے باطل ہے : اول : ان میں سے: مفعولِ معین کا اپنے فاعل کے ساتھ مقارنہ خاص طور پر اس کے ساتھ ازلاً اور ابداً مقارنہ صریح عقول کے اعتبار سے ممتنع ہے بلکہ عقل اوّلی میں بھی تصورِ تام کے بعد یہ ممتنع ہے۔ اوراگر وہ یہ کہیں کہ علومِ ضروریہ کے انکار پر ان عقلاء کا کوئی بھی گروہ متفق نہیں جن کا جھوٹ پر اتفاق ناممکن ہے ۔ [جواب ]: تو ان کو جواب میں کہا جائے گا کہ کوئی حر ج نہیں کیونکہ یہ تو ایسا قول ہے جس پرعقلاء میں سے کوئی بھی گروہ متفق نہیں بلکہ جمہورِ عقلاء اگلے پچھلے وہ سب انتہائی درجے کی نکیر کرتے ہیں ،اس کا صرف ایک ہی گروہ قائل ہے جواس قول کو آپس میں بعض بعض سے تقلیدا اور اندھا اعتماد کرتے ہوئے نقل کرنے والے ہیں باہم ایک دوسرے کی موافقت کر تے ہوئے ۔جب اس گروہ کے افراد اس قول کو دوسرے کی موافقت میں اختیار کرنے والے ہیں تو اس صورت میں عمداً جھوٹ بولنا اور جھوٹ بولنے پر اتفاق اور امور مشتبہ پر اتفاق ایک ممکن امر ہے (یعنی باہمی گھٹ جوڑ کرکے کسی باطل پر متفق ہونا )؛جیسے کہ وہ مذاہب ِ باطلہ جن کا فساد بدیہی عقل سے معلوم ہے۔ بخلاف ان اقوال کے جس کا لوگ اتفاقی طور پر اقرار کرتے ہیں ۔ یعنی بغیر تقلید کے اور دوسروں کی دیکھا دیکھی کے پس ان میں سے کوئی بھی ایسی شے نہیں ہے جس کا بدیہی عقل سے فساد معلوم ہو اسی وجہ سے تو کفار کے عام اقوال اور اسی طرح اہل بدعت جو کہ مشرکین اور نصاریٰ اور روافض اور جہمیہ ہیں ان کے عام اقوال ایسے ہیں جن کا فساد بدیہی عقل سے معلوم ہے لیکن وہ ایسے اقوال ہیں کہ ان میں سے صرف ایک گروہ اس کا