کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 255
دی ہے اور وہ ان کے ساتھ ہر گز ہرگز مناقض اور مخالف نہیں اور ہم نے کئی جگہ پر اُس بات پر تنبیہ کر دی ہے جوطرقِ باطلہ سے استغناء کو ثا بت کرتا ہے وہ طرقِ باطلہ جو نئے نکالے گئے ہیں یعنی مبتدع اور مخترع ہیں ،جن کے ذریعے وہ باتیں معلوم ہو جاتی ہیں جو رسول کے خبر کے موافق ہیں اور ہم نے یہ بات بھی اچھے طریقے سے بیان کر دی ہے کہ صحیح عقلی دلائل وہ اُن اخبار اور امور کے موافق ہیں جن کی رسولوں نے خبر دی ہے جس طرح کہ یہ طرق اور اس کے علاوہ ہیں ۔
دوبارہ مسئلہ قدم عالم کی طرف :
بالتحقیق صریح عقلی دلائل سے یہ بات ثابت ہے کہ جب عالم کے فاعل کے بارے میں یہ کہا جائے کہ وہ علتِ تامہ ازلیہ ہیں ؛ اور علتِ تامہ تو اپنے معلول کو مستلزم ہوتی ہے تو یہ بات لازم آئی کہ وہ قدم کی صفت میں اپنے معلول سے کچھ بھی پیچھے نہ ہو۔ پس ا سکی ذات سے کوئی شے بھی حادث نہیں ہوتی نہ بالواسطہ اور نہ بلا واسطہ۔ اور یہ بات بھی ممتنع ہے کہ وہ یکے بعد دیگرے کئی مفاعیل کے لیے علت بنے بغیر اس کے کہ اس کی ذات کے ساتھ کوئی ایسی شے قائم ہو جو دوسرے کے لیے علت بنے پس ان مفاعیل کے احوال کے تماثل اور یکسانگی کے ساتھ یہ بات بھی ممتنع ہے کہ ان کے مفعولات مختلف ہوں اور ان میں سے کوئی ایک شے حادث بنے ۔
یہ ایک ایسی بات ہے جس میں کوئی بھی ایسا عاقل اختلاف نہیں کرسکتا جو اچھی طرح اس کا تصور کرسکے اور اس کو سمجھ سکے۔ اور ان کے عقل مند اورماہرین اس بات کا اعتراف کرتے ہیں جس طرح کہ ابن رشد حفید اورابو عبد اللہ الرازی اور ان کے علاوہ نے یہ بات ذکر کی ہے کہ ایک بسیط ذات سے متغیراتِ مختلفہ کا صدور ایک ایسا عمل ہے کہ عقول اس کا انکا ر کرتی ہے ۔
اسی طرح جب اس ذات کوموجب بالذات کہا جائے اور یہ کہا جائے کہ وہ مؤثر تام ہے اور اس کی تاثیر ازل میں ثابت ہے اور وہ ازل میں مُرجّح تام ہے اور اس کے امثال دیگر تعبیرات ۔اسی طرح جب یہ کہا جائے کہ وہ قادرو مختار ہے اور وہ ازل میں اس کی مراد کو مستلزم ہے تو بہ تحقیق یہ ازل میں اس کی مراد کے وجود کو مستلزم ہوا ۔ تو لازم آیا کہ اس کے مراد میں سے کوئی شے بھی حادث نہ ہو پس عا لم میں سے کوئی شے بھی حادث نہیں ہوگی کیوں کہ کوئی شے بھی حادث نہیں ہوتی مگر اللہ کے ارادے کے ساتھ پس جب اس کا ارادہ ازلیہ ہے اور وہ ازل میں اس کے مراد کے وجود کو مستلزم ہے تویہ بات لازم آئی کہ اس کے سارے مرادات میں سے کوئی شے بھی حادث نہ ہو پس عالم حادث نہیں ہوگا اور یہ تو خلافِ مشاہدہ ہے اور وہ اس کے قائل نہیں ۔
کوئی بھی عاقل اس کا قائل نہیں کہ اس کی ذات تمام معلولات کے لیے علتِ تامہ ازلیہ ہے اور نہ اس بات کا کہ وہ تمام عالم کے لیے موجب ازلی ہیں یہاں تک کہ اس کے ہر ہر فرد اور اشخاص کے لیے بھی اور کوئی بھی اس