کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 254
مقصود ہے کہ نصاریٰ کادین تحریف شدہ ہونے کے باوجود ان لوگوں کے دین سے بہتر تھا جو اہل یونان تھے اور فلاسفہ کی اتباع کرنے والے تھے اسی وجہ سے وہ فلاسفہ جنہوں نے دین اسلام کو دیکھا تھا وہ کہتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین تمام ادیان سے بہتر ہے اور ان کا خیال یہ تھا کہ وہ نصاریٰ اور مجوس اور ا ن کے علاوہ دیگر ادیان سے بھی بہتر ہے پس انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں کوئی طعن واعتراض نہیں کیا جس طرح کہ ان لوگوں نے طعن کیا جو فلاسفہ میں سے زنادقہ ہیں اور ان کا خیال یہ تھا کہ اس دین کے بارے میں متکلمین جواعتراضات کرتے ہیں وہ صریح معقول کے خلاف ہیں پس اس کے بسبب انہوں نے ان پرطعن کیا اور کہنے لگے کہ جوشخص متعصب نہ ہو اور وہ خواہشات کا اتباع کرنے والا نہ ہو تو وہ وہ بات نہیں کہے گا جو یہ لوگ مبدأ اور معاد کے بارے میں کہتے ہیں ۔ فلاسفہ کے اقوال : ان فلاسفہ کے ایسے اقوال ہیں جو عقلی اعتبار سے فاسد ہیں اور وہ انہوں نے اپنے ان اسلاف سے حاصل کئے ہیں جو ان کے آئمہ ہیں اور ان کا خیال یہ ہے کہ انبیائے کرام سے جو باتیں تواتر کے ساتھ منقول ہیں وہ عقل کے خلاف ہیں پس یہ اپنے باطنی طریقے پر چلے ہیں چنانچہ انہوں نے کہا کہ رسولوں نے علم اور ان حقائق کو بیان نہیں کیا کہ جن کو امورِ علمیہ میں برہان قائم ہوتا ہے یعنی وہ مدلل ہوتے ہیں پھر ان میں سے بعض وہ ہیں جنہو ں نے یہ کہا کہ رسولوں نے خود ان باتوں کو جان لیا لیکن اس کو واضح طور پر بیان نہیں کیاجبکہ بعض وہ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ رسولوں کو خود ان امور کا علم نہیں تھا بلکہ وہ تو حکمت علمیہ میں گہرائی تک پہنچنے والے تھے لیکن وہ حکمت عملیہ کے تہہ تک توپہنچے ہوئے تھے لیکن حکمتِ علمیہ پردسترس نہیں رکھتے تھے لیکن وہ جمہور کے ساتھ ایک ایسے خطاب کے ساتھ ہم کلام ہوئے جو اُن باطل اوہام اور خیالات پر مبنی ہے جو اللہ تعالیٰ پر اور آخر ت کے دن پر ایمان کے معاملے میں ان کے ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں ،جن کا اعتقاد اُن کے لیے اپنی سیاست میں نافع نہیں ہے اگرچہ یہ اعتقاد باطل ہے اور حقائق کے مطابق نہیں ہے۔ یہ فلاسفہ اس کی تاویل کو بھی جائز نہیں سمجھتے کیوں کہ ان کے نزدیک اس سے مقصود تخییل ہے اور تاویل تو ان کے مقصود کے معارض اور مناقض ہے اور وہ عبادات کا تو اقرار کرتے ہیں لیکن وہ یہ کہتے ہیں کہ ان کا مقصود تو نفس کے اخلاق کی اصلاح ہے اور بسا اوقات یہ کہتے ہیں کہ یہ عبادات ان خاص لوگوں سے یعنی خواص سے ساقط ہیں جو حقائق کی معرفت رکھتے ہیں پس ان متکلمین کی بدعت نے ان ملحدین فلاسفہ کے الحاد کی مدد کی اور بتحقیق ان کے رازوں کو کھولنے اور صریح معقول اور صحیح منقول کے ساتھ ان کی واضح مخالفت کے بیان میں تفصیلی بات ایک اور مقام پر ہو چکی ہے اور یہ بھی وہاں مذکور ہے کہ معقولاتِ صریحہ تو اُن باتوں کے موافق ہیں جن کی رسولوں نے خبر