کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 250
موجود حکمتوں میں سے کوئی حکمت نہیں بیان کی اور نہ کوئی کتاب اللہ اورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی طرف سے منقول خبر کی کوئی دلیل ،پس وہ کیسے دینِ اسلام ٹھہرے گا بلکہ دینِ اسلام کے اصولوں میں سے کوئی اصل بھی ایسی نہیں جس پر کوئی کتاب یا سنت یا سلف میں سے کسی کا قول دلیل ہو ۔
فلاسفہ کا ظہور :
پھر اس کے بعد اسلام میں ملحد فلاسفہ اوران کے علاوہ دیگر پیدا ہوئے اور وہ ان زمانوں کے اختتام کے بعد پھیل گئے اورپیدا ہوئے جن کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر کی گواہی دی تھی اور پھر ہر ایسا زمانہ اور مکان جس میں اسلام کا نور ضعیف ہوتا جاتا تھا تو اس میں ان کو غلبہ حاصل ہوتا اور وہ اس میں ظاہر ہوتے اور ان کے ظہور کے اسباب میں سے یہ ہے کہ انہوں نے یہ گمان کیا کہ دین اسلام تو وہ نہیں جویہ مبتدعین کہتے ہیں اور انہوں نے اس کو عقلی فساد سمجھ لیا پس انہوں نے معروف دینِ اسلام کو عقلی اعتبار سے فاسد اور غلط سمجھ لیا پس ان کی اولاد نے بھر پور طریقے سے زبان اور ہاتھ دونوں کے ذریعے اسلام کے دین میں طعن اور اعراضات کئے جیسے کہ خرمیہ جو کہ بابک الخرمی کے پیروکار ہیں اور بحرین کے قرا مطہ جو ابو سعید جنابی کے پیروکارہیں اور ان کے علاوہ دیگر۔
رہے وہ لوگ جو ان میں سے اعتدال پسند تھے وہ ان کے عقلاء تھے انہوں نے یہ خیال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو خیر اور صلاح لے کر آئے ہیں یہ ایسے امور ہیں کہ ان میں اندر قدح اور اعتراض ممکن نہیں بلکہ ان کے ماہرین اور عقلمندوں نے تو اس بات کا اعتراف کیا جس کا ابن سینا اور ان کے علاوہ دیگر نے بھی اعتراف کیا ہے یعنی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور شخص نے پورے عالم کو نہیں کھٹکایا یعنی اس میں انقلاب نہیں پیدا کیا اور یہ ان کے عقل اور فلسفہ کے بسبب تھا پس بے شک انہوں نے یونان کی بڑی شخصیات میں غور کیا تو انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ وہ دین جس کو موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام لے کر آئے ہیں ان لوگوں کے ادیان اور ان کی دین سے بہت بڑھ کر ہے اور اسی وجہ سے جب عیسیٰ علیہ السلام کا علم روم پہنچا تو وہ یونانی فلسفہ سے دین مسیح کی طرف منتقل ہوئے اور ارسطودین مسیح سے تین سو سال پہلے گزر ا تھا اور وہ اس اسکند بن فیلبس مقدونی کا وزیر تھاجو اہل فارس پر غالب آیا تھا اور یہ وہی ہے جس کی وجہ سے آج رومِ تاریخ (شمسی حساب )سے حساب کیا جاتا ہے اور یہود و نصاریٰ اس سے حساب کرتے ہیں اوریہ وہ اسکندر نہیں ہے جو ذوالقرنین ہے جس کا ذکر قرآن میں ہے جس طرح کہ ایک گروہ کا گمان ہے کیوں کہ وہ تو اس سے مقدم ہے یہ متقدم یعنی سکندر قدیم وہی ہے جس نے یاجوج اور ماجوج کا سد بنایا تھا یعنی اس کی دیوار کو بنایا تھا اور یہ (مقدونی ذوالقرنین)اس سد تک پہنچا نہیں اور یہ تو مسلمان موحد تھا اور مقدونی تو مشرک تھا یہ اور اس کے علاقے کے لوگ یونانیین مشرک تھے جوستاروں اور بتوں کی عبادت کرتے تھے ۔