کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 25
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو شخص مسلمانوں کی جماعت سے ایک بالشت بھر الگ ہوا تو اس نے اسلام کا جؤا اپنی گردن سے اتار پھینکا یہاں تک کہ اس کی طرف لوٹ آئے۔‘‘[1] سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( عَلَیْکُمْ بِالسَّوَادِ الْاَعْظَمِ وَمَنْ شَذَّ شُذَّ فِی النَّارِ )) [2] ’’سواد اعظم سے وابستہ رہیے جو الگ ہوا تو اسے تنہا دوزخ میں ڈالا جائے گا۔‘‘ احادیث نبویہ کے علاوہ قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے، کہ اﷲ تعالیٰ نے ’’ سبیل المؤمنین ‘‘ کو اﷲ و رسول کی اطاعت کے ساتھ مقرون و متصل قرار دیا ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: ﴿ وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ وَسَآئَ تَْ مَصِیْرًا ﴾[النساء:۱۱] ’’جو شخص ہدایت وضح ہونے کے بعد رسول کی مخالفت کرتا اور مومنوں کے علاوہ دوسری راہ پر چل دیتا ہے تو جدھر کا رخ کرتا ہے، ہم اسے اسی جانب پھیر دیتے ہیں اور ہم اسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔‘‘ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے رو گردانی ہی جہنم لے جانے کیلئے کافی تھی تاہم مذکورہ بالا آیت میں مومنوں کی اختیار کردہ راہ کے سوا دوسرے راستوں کی جانب میلان و رجحان کو بھی دخول جہنم کا باعث قرار دیا۔ جس سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ ’’اﷲاور رسول کی اطاعت اور سبیل المؤمنین ‘‘ باہم لازم و ملزوم اور ایک دوسرے کا اٹوٹ اننگ ہیں ۔دوسری جگہ ارشاد ہوا:﴿کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ﴾(آل عمران۱۰۰) ’’تم بہترین جماعت ہو جسے لوگوں کے فائدہ کیلئے ظاہر کیا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہو۔‘‘ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمان بہ حیثیت مجموعی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے ہیں ، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ ضلالت پر جمع نہ ہوں گے اور صرف ایسی چیز کو واجب یا حرام قرار دیں گے جس کے وجوب و حرمت کا فتویٰ اﷲ و رسول نے صادر کیا ہو، یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ وہ بحیثیت مجموعی حق گوئی سے سکوت اختیار کریں جب کہ وہ شرعاً امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے مکلف و مامور ہیں ، یہ صریح نص قرآنی کے خلاف ہے۔ مذکورہ بالا دلائل اور دیگر لا تعداد براہین و دلائل کی بنا پر مسلمان دین اسلام کو ایک اجتماعی دین قرار دیتے
[1] مسند احمد(۴؍۱۳۰) سنن ترمذی ، کتاب الامثال، باب ما جاء فی مثل الصلاۃ والصیام، (ح:۲۸۶۳) بھذا اللفظ، سنن ابی داؤد۔ کتاب السنۃ۔ باب فی الخوارج(ح۴۸۵۸) مختصرًا عن ابی ذر رضی اللّٰہ۔ [2] سنن ابن ماجۃ۔ کتاب الفتن، باب السواد الاعظم(حدیث:۳۹۵۰) مختصرًا و سندہ ضعیف جداً اس کی سند میں معان بن رفاعۃ، لین الحدیث اور ابوخلف الاعمی متروک راوی ہے۔مستدرک حاکم(۱؍۱۱۵) من طریق آخر و سندہ ضعیف ایضاً۔