کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 249
تورات انجیل اور قرآن کا ہے اور وہی آیت الکرسی کا معنی ہے اور دین کی آیت (یعنی دین کے احکام پر مشتمل آیت )کا معنی ہے اور قل ھو الاحد کا بھی ایک معنی ہے اور سورۃ فلق کا معنی ہے ۔
انہوں نے اس بات کا انکار کیا کہ وہ کلامِ عربی جو ہم پڑھتے ہیں یہ کلام اللہ ہو دوسری جماعت نے کہا کہ حروف یا حروف اور اصوات دونوں قدیم اور ازلیۃ الاعیان ہیں یعنی اپنی ذات کے اعتبار سے ازلی ہیں ،انہوں نے کہا کہ ان کی ذات میں ترتیب ہے وجود میں ترتیب نہیں اور انہوں نے حقیقت اور وجودِ حقیقت کے درمیان فرق کر دیا جس طرح کہ اہل کلام میں سے بہت سے لوگ اللہ کے وجود اور اس کی حقیقت کے درمیان فرق کرتے ہیں اوربہت سے ان میں سے اورفلاسفہ میں سے بھی ممکنات کے وجود اور ان کی حقیقتوں کے درمیان فرق کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ترتیب ان کی حقائق میں ہے نہ کہ ان کے وجود میں بلکہ وہ تو ازلاً و ابداً موجود ہیں اور ان میں سے کوئی شے بھی ایسی نہیں جو دوسرے سے سابق ہو یعنی سب آنِ واحد میں موجود ہیں اگرچہ ان کے حقائق ترتیبِ عقلی کے ساتھ مرتب ہیں جس طرح کہ ذا ت کی صفات پر ترتیب اور تقدیم ہے اور جیسے کہ معلول کی علت پر تقدیم ہے جس طرح کہ وہ فلاسفہ اس کے قائل ہیں جو قدمِ عالم کے قائلین ہیں چنانچہ انہوں نے کہا کہ رب تعالیٰ پورے عالم پر اپنی ذات اور حقیقت کے اعتبار سے متقدم ہیں اور وہ عالم پر تقدمِ زمانی کے اعتبار سے متقدم نہیں اور انہوں نے اللہ کے بعض کلام پر بعض کے تقدم کے بارے میں اُسی طرح بات کہی جس طرح کہ لوگوں نے اس کے معلول پر تقدم کے بارے میں کہی اور یہ لوگ تقدم اور تاخر اور ترتیب کو دو قسم پر قرار دیتے ہیں :ایک عقلی دوسرا وجودی ۔اور وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے جس ترتیب سے تقدم او ر تاخر کو ثابت کیا ہے وہ عقلی ہے وجودی نہیں ۔
رہے جمہورِ عقلاء تو وہ اس بات کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان لوگوں کا یہ قول تو معلول الفساد ہے بداہۃاور یقیناً ،ترتیب اور تقدم وتاخر تو صرف اور صرف اِسی سے عبارت ہے کہ ایک شے دوسرے کے بعد موجود ہوتا ہے اور یہ اس صورت میں ممکن نہیں کہ اس کو اس کے ساتھ حسی طور پر معیت حاصل ہو الا یہ کہ وہ اس کے بعد ہی ہو تب تو تقدم وتاخر متحقق ہوگا جس طرح کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ معلول صرف علت کے بعد ہی موجود ہوتا ہے اور وہ اس کے ساتھ ملا ہوا نہیں ہوتا یعنی اس کی اس کے ساتھ معیت نہیں ہوتی اور یہ امور اس مقام کے علاوہ تفصیل سے بیان ہوئے ہیں لیکن یہاں پر اس میں سے صرف اتنی بات ذکر کر دی گئی ہے جو آسانی سے سامنے آئی اور مقصود تو یہ ہے کہ یہ کلامی طریقہ جس کو جہمیہ اور معتزلہ نے عقل سے بنا کرنکالا ہے اور امت کے سلف نے اور آئمہ نے اس کا انکار فرمایا ہے تو یہ بہت سے متاخرینِ اہل نظر کے نزدیک دینِ اسلام ہی ٹھہرا بلکہ وہ تو اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ جو اس کی مخالفت کرے تو دینِ اسلام کی مخالفت کرنے والا ہے باوجود یکہ اس نے اس میں