کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 246
﴿ أُکُلُہَا دَآئِمٌ وِظِلُّہَا﴾(سورۃ رعد ۳۵ ) ’’ان کا پھل بھی دائمی ہے اور سایہ بھی۔‘‘ اور اس کے علاوہ دیگر وہ نصوص جو کہ جنت کی نعمتوں کے بقاء پر دلالت کرنے والے ہیں ۔ لہٰذا ابو الہذیل علاف نے کہا یقیناً دلیل تو صرف حوادث کے انقطاع پر دلالت کرتی ہے۔ لہٰذا جنت اور جہنم کی بقا تو ممکن ہے لیکن حرکات منقطع ہو جائیں گی۔ لہٰذا اہل جنت اور اہل نار باقی رہیں گے۔ اس حال میں کہ یہ اس میں سکون اور بے حرکت حالت میں ہونگے ،اس میں بالکل حرکت نہیں ہوگی۔ اور ایسی کوئی شے بھی نہیں ہوگی جو نئی پیدا ہو تو اس پراس قول کے مطابق یہ بات لازم آتی ہے کہ وہ ایسے اجسام کو ثا بت کرے جو باقی اوردائم رہیں اوروہ حوادث سے خالی ہوں پس ایسے اجسام کا وجود لازم آئے گا جو بغیر حوادث کے ہوں ۔ لہٰذا وہ اصل جس پر انہوں نے اپنے مذہب کی بنیاد رکھی تھی وہ منقوض ہو جائے گا اور وہ یہ ہے کہ اجسام حواد ث سے خالی نہیں ہوتے یہی وہ اصل ہے جس پر ہشام بن عقیل ،ہشام بن سالم الجوالیقی اور ان کے علاوہ دیگر وہ لوگ جو مجسمہ اور رافضہ میں سے ہیں اور غیر رافضہ میں سے کرامیہ نے بھی اپنے مذہب کی بنیاد اس پررکھی ہے ۔ پس ان کا عقیدہ ہے کہ ایک ایسے جسم قدیمِ ازلی کا ثبوت بالکل ممکن جس کے وجود کے لیے کوئی اول نہ ہو اور وہ تمام حوادث سے خالی ہو۔ اور ان لوگوں کے نزدیک جسم قدیمِ ازلی حوادث سے خالی ہو سکتا ہے ۔رہے وہ اجسام جو مخلوق ہیں تو وہ حوادث سے خالی نہیں ہوتے اور وہ یہ کہتے ہیں کہ جو شے حوادث سے خالی نہ ہو وہ حادث ہوتی ہے لیکن وہ یہ نہیں کہتے کہ ہر جسم حوادث سے خالی نہیں ہوتا ۔ پھر یہ جہمیہ جو ایسے اصل کو اختیار کرنے والے ہیں جو ایک مبتدع اور انوکھا اصل ہے یہ اس بات کی طرف محتاج ہیں کہ وہ اس اصل کو چھوڑ دیں پس انہوں نے یہ کہا کہ رب تعالیٰ کی ذات کے ساتھ صفات قائم نہیں نہ افعال اس لیے کہ وہ اعراض اور حوادث ہیں اور یہ تو صرف کسی جسم کے ساتھ قائم ہو سکتے اور اجسام تو محدث ہوتے ہیں پس لازم آئے گا کہ رب تعالیٰ کے ساتھ اس کی علم اوراس کی قدرت اوراس کی مشیت اور اس کی رحمت اور اس کی غضب اور اس کے علاوہ دیگر صفات قائم نہ ہوں بلکہ سارے کے سارے وہ صفات جس سے اس کی ذات کو موصوف کیا جاتا ہے وہ ساری صفات مخلوق اور اس کی ذات سے منفصل ٹھہریں گی ۔ جہمیہ تو یہ کہتے ہیں کہ ہمارا قول تو یہ ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ متکلم ہے لیکن یہ مجاز ہے اور معتزلہ نے کہا کہ وہ متکلم بالمعنی الحقیقی ہے لیکن معنی ان دونوں کا ایک ہی ہے دونوں فرقوں کی بات کامحل ایک ہی ہے پس ان لوگوں کی اصل وہی مادہ ہے جس کی بنیاد پر یہ بدعت پیدا ہوئی ہیں پس ابن کلاب ان کے بعد آیا جب کہ محنت کا فتنہ ظاہر ہوا جو مشہور فتنہ ہے اور اس میں امام احمد اور اس کے علاوہ آئمہ سنت میں سے ان کو انتہائی مشقت اور تکالیف