کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 245
اللہ ابن عمر ،عبد اللہ ابن عباس،جابر ابن عبد اللہ اور واثلہ بن اثقع رضی اللہ عنہ۔ پھر تابعین کے زمانے کے بالکل اواخر میں اور دوسری صدی کے اوائل میں جہمیہ جو کہ صفات کے منکر تھے ان کا فتنہ پیدا ہوا اور سب سے پہلے جس نے اس فتنہ کا کھل کر اظہار کیا وہ جعد ابن درہم تھا ،خالد ابن عبد اللہ قسری نے اس کو بلایا اور مقامِ واسط میں چاشت کے وقت اور یوم النحر میں لوگوں کے سامنے خطبہ دیا اور کہا اے لوگو! قربانی کرو اللہ تعالیٰ تمہاری قربانی کو قبول کرے آج کے دن میں جعد ابن درہم کی قربانی کرتا ہوں ۔ بے شک یہ آدمی یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل نہیں بنایا اور موسیٰ علیہ السلام سے کلام نہیں فرمایا اور اللہ تعالیٰ اس بات سے بہت ہی بلند اوربرتر ہیں جو کہ جعد کہتا ہے اور پھر منبر سے اترے اور اس کو ذبح کر دیا۔ پھر اس مذہب کے ساتھ جہم بن صفوان ظاہر ہوا۔ اور اس کے بعد اس مذہب میں معتزلہ داخل ہوئے اور یہ وہ پہلے لوگ تھے جن سے یہ مذہب منقول ہوا اہل اسلام میں سے یعنی اہل اسلام میں سے سب سے پہلے معتزلہ نے اس مذہب کو اختیار کیا یقیناً انہوں نے عالم کے حدوث کو ثابت کیا حدوث اجسام کے ساتھ اور انہوں نے اجسام کے حدوث کو ثابت کیا ان اشیاء کے حدوث کے ساتھ جو اس کے ساتھ مستلزم ہیں یعنی اعراض اور انہوں نے کہا کہ اجسام اپنے اعراض محدثہ سے بالکل جدا نہیں ہوتے اور جو شے حوادث سے جدا نہ ہو یا جو شے حوادث سے سابق نہ ہو تو وہ بھی حادث ہوتا ہے اس لیے کہ ایسے حوادث ممتنع ہیں جن کے لیے کوئی اول نہ ہو یعنی وہ ازلی ہوں ۔ پھر بعد میں وہ اس اصل سے پھر گئے۔ اور جو انہوں نے ماضی میں حوادث کے دوام کے امتنا ع کا عقیدہ اختیار کیا تھا تو مستقبل میں حوادث کے دوام سے ان کے ساتھ معارضہ کیا گیا۔پس اس طریقے کے دو اماموں نے اس اصل اور اس قاعدے کو چھوڑ دیا جو کہ جہمیہ کے امام جہم بن صفوان اور ابو الہذیل علاف ہیں جو کہ معتزلہ کے امام ہیں اور انہوں نے مستقبل اور ماضی دنوں میں حوادث کے دوام کے امتناع کا قول اختیار کیا ۔ پھر جہم نے تو یہ کہا کہ جب معاملہ اس طرح ہے لہٰذا جنت اور نار کی فنا لازم آئے گی اور بے شک یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ کے ماسوا سب کچھ معدوم ہو جائے گا جس طرح کے پہلے معدوم تھے اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کا سلف نے اور آئمہ نے جہمیہ پر نکیر فرمائی ہے اور حضرات سلف اور آئمہ نے اس بات کو ان کے کفر میں سے شمار کیا ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تو ارشاد یہ ہے کہ: ﴿ إِنَّ ہَذَا لَرِزْقُنَا مَا لَہُ مِن نَّفَادٍ ﴾( ص ۵۴ ) ’’بلاشبہ یقیناً یہ ہمارا رزق ہے، جس کے لیے کسی صورت ختم ہونا نہیں ہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: