کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 244
سے رجوع نہیں کیا تو آپ نے آگ جلانے کا حکم دیا۔یہ خندقیں باب کندہ کے پاس کھودی گئیں ۔ اور ان لوگوں کو اس آگ میں ڈال دیا گیا۔ اس موقع پر آپ نے وہ مشہور شعر کہا: فلما رأیت الامر أمراً منکراً أججت ناری و دعوت قنبرا ان لوگوں کو قتل کرنا بالاتفاق واجب تھا۔ لیکن ان کو آگ سے جلانے میں علماء کرام کا اختلاف تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ سمجھتے تھے کہ انہیں آگ میں جلا دیا جائے ۔ جب کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمااور دوسرے فقہاء کا خیال اس کے خلاف تھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: ’’ اگر میں اس جگہ پر ہوتا [یا میرا بس چلتا ] تو میں انہیں آگ میں نہ جلاتا ‘ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ : ’’ کوئی بھی اللہ کے عذاب سے مخلوق کو عذاب نہ دے ۔‘‘میں ان کی گردنیں مار دیتا۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : ’’ جو کوئی اپنے دین کو بدل ڈالے اسے قتل کردو۔‘‘ [یہ حدیث بخاری میں ۹؍۱۵پر ہے۔ ] رہ گئے سبُّ و شتم کرنے والے ‘ جو کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو گالیاں دیتے ہیں ؛ ان کے بارے میں جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خبر پہنچی تو آپ نے ابن سوداء [عبد اللہ ابن سباء شیعیت کے موجد اعلی] کو بلا بھیجا؛ جس کے بارے میں آپ کو یہ شکایت ملی تھی۔آپ اس کو قتل کرنا چاہتے تھے ‘ مگر وہ قرقیسیا کی طرف بھاگ نکلا۔ رہ گئے مفضلہ ؛ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جناب حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہماپر فضیلت دیتے ہیں ‘ ان کے متعلق آپ سے روایت کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’ جب بھی کوئی ایسا انسان میرے پاس لایا جائے گا جو مجھے حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماپر ترجیح دیتا ہو ؛ تو میں اسے بہتان گھڑنے والی کی حد لگاؤں گا؛ [یعنی اسی کوڑے مارے جائیں گے]۔ آپ سے تواتر کے ساتھ منقول ہے کہ آپ نے کوفہ کے منبر پر ارشاد فرمایا: ’’ آگاہ ہوجاؤ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے سب سے بہترین فرد حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما ہیں ۔‘‘ یہ بات آپ سے تقریباً اسی اسناد کیساتھ روایت کی گئی ہے۔ اسے امام بخاری اور دوسرے لوگوں نے بھی روایت کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے شیعہ بالاتفاق حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکو حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ترجیح دیتے تھے۔جیسا کہ کئی لوگوں نے روایت کیا ہے۔ پس یہ دو بدعتیں یعنی خوارج اور شیعہ کی بدعت یہ اس وقت پیدا ہوئی جب کہ فتنہ واقع ہوا۔ پھر صحابہ کرام کے زمانے کے بالکل آخر میں قدریہ اور مرجئہ کا فتنہ پیدا ہوا حضراتِ صحابہ اور تابعین نے اس پر نکیر فرمائی جیسے عبد