کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 243
’’ میرے رب نے مجھے یہ حکم دیاہے کہ میں تم لوگوں کو وہ باتیں سکھا دوں کہ جن باتوں سے تم لا علم ہو۔ میرے رب نے آج کے دن مجھے وہ باتیں سکھا دی ہیں ۔ میں نے اپنے بندے کو جو مال دے دیا ہے وہ اس کیلئے حلال ہے اور میں نے اپنے سب بندوں کو حق کی طرف رجوع کرنے والا پیدا کیا ہے؛ لیکن شیطان میرے بندوں کے پاس آکر انہیں ان کے دین سے بہکاتے ہیں ۔ اور میں نے اپنے بندوں کے لئے جن چیزوں کو حلال کیا ہے وہ ان کے لئے حرام قرار دیتے ہیں اور وہ ان کو ایسی چیزوں کو میرے ساتھ شریک کرنے کا حکم دیتے ہیں کہ جس کی کوئی دلیل میں نے نازل نہیں کی۔‘‘ مسلمانوں میں بدعات اور اہل کلام کے مذاہب کی تاریخ : مسلمان اس چیز پر قائم تھے جو پیغام اور دین حق دیکر اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ۔ جوکہ صحیح منقول اور صریح معقول کے موافق تھا۔ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا گیا ‘ تومسلمانوں کے درمیان فتنہ پیدا ہوا۔ مسلمانوں کے مابین صفین کے موقع پر جنگ و قتال بپا ہوئے۔ اور وہ لوگ ظہور پذیر ہوئے جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’مسلمانوں کی تفرقہ بندی کے وقت ایک فرقہ کا ظہور ہوگا ‘ اور دو گروہوں میں سے ان کو وہ لوگ قتل کریں گے جو حق کے زیادہ قریب ہوں گے۔‘‘ [مسلم ۲؍۷۴۵؛ سنن ابو داؤد ۴؍۳۰۰] ان لوگوں کا ظہور اس وقت ہوا جب یہ دونوں مسلمان گروہ دو جرگہ داروں پر راضی ہوگئے۔اور بغیر کسی فیصلہ کے ان کا افتراق ہوگیا۔اور اس وقت سے شیعیت کی ابتداء ہوئی۔ ان لوگوں کا ظہور ہوا جو غالی شیعہ بنے ؛ جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خدا ہونے کا دعوی کیا۔ اوروہ لوگ سامنے آئے جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ منصوص ہونے کا دعوی کیا؛ جو ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکو گالی دینے لگے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان دونوں قسم کے لوگوں کو سزا دی۔خوارج سے قتال کیا ۔ اور جن لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے الہ ہونے کا دعوی کیا تھا‘ انہیں آگ میں جلادیا۔ ایک روز حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے گھر سے باہر نکلے ؛ تو جو لوگ آپ کو خدا سمجھتے تھے ‘ انہوں نے آپ کو سجدہ کیا ۔ آپ نے ان سے پوچھا یہ کیا ہے ؟ کہنے لگے : تم وہی ہو۔ آپ نے پوچھا:میں کون ہوں ؟ کہنے لگے : ’’ آپ وہ معبود ہیں جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’ تمہارے لیے ہلاکت ہو ‘ ایسے کہنا کفر ہے ۔ اپنی بات سے رجوع کرو ‘ ورنہ میں تمہاری گردنیں ماردوں گا۔‘‘ دوسرے دن بھی ان لوگوں نے ایسے ہی کیا۔ تیسرے دن بھی ایسے ہی کیا ۔ آپ نے تین دن تک انہیں مہلت دی۔ اس لیے کہ مرتد کو توبہ کرنے کے لیے تین دن کی مہلت دی جاتی ہے ۔ جب انہوں نے اپنے قول