کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 241
کہ مسلمان کہتے ہیں یا یہ کہا جائے کہ وہ موجب بالذات ہیں یا اس کی ذات ایک ایسی علت ہے جو معلول کو مستلزم ہے یا اس کو مؤثر کانام دیا جائے کیوں کہ لفظ تاثیر ان تمام انواع کو شامل ہے پس اس میں اپنے اختیار کے ساتھ فعل کرنے والا فاعل بھی داخل ہے اور اس میں بذاتہ کا لفظ بھی داخل ہے اور اس کے علاوہ بھی بلکہ اللہ تعالیٰ تو وہی ذات ہے جو اس قدم کے ساتھ مختص ہے جس کا وہ مستحق ہے اور اس کے ماسوا تمام اشیاء مسبوق بالعدم ہیں ۔
لیکن اس بات جہمیہ اور معتزلہ کے طریقے پر استدلال أعراض ،حرکت اور سکون کا طریقہ ہے وہ طریقہ جس کی بنیاداس بات پر ہے کہ اجسام حادث ہیں کیوں کہ وہ حوادث سے خالی نہیں ہوتے اور ایسے حواد ث کے وجود کا امتناع جن کا کوئی اول نہ ہو ،شریعت میں ایک انوکھا اور مبتدع طریقہ ہے اس پر اہل علم کااتفاق اور یہ ایک خطرناک راستہ ہے جو عقلاً بھی خوفناک ہے بلکہ بہت سی جماعتوں کے نزدیک یہ ایک مذموم راستہ ہے اگرچہ اس کا بطلان معلوم نہیں کیوں کہ اس کے کثیر مقدمات ہیں ۔ اس کی خفا اور اس میں بہت سے اہل نظر کے نزدیک نزاع کی وجہ سے ،جیسے کہ امام اشعری نے اہل ِ ثغر کی طرف اپنے رسالے اس کا ذکر فرمایا ہے۔ اور وہ لوگ جو اس معاملے میں ان کی راہ پر چلے ہیں جیسے کہ خطابی اور ابوعمر طلمنکی اور ان کے علاوہ دیگر ،اور یہ ان ائمہ کے نزدیک شرعاً اور عقلاً باطل طریقہ ہے۔ اور جو علماء عقلی اور نقلی حقائق سے واقف ہیں وہ بھی اس کے بطلان کو جانتے ہیں ۔
اس طریقے کے ذریعے استدلال نے اللہ تعالیٰ کی ان صفات کی نفی کو ثابت کر دیا جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہیں اور اسی طرح اُن افعال کی نفی کو جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہیں اور(اس طریقے کے ذریعے استدلال نے ) جہمیہ کے ان بدعات کو بھی ثابت کر دیا جو آئمہ سلف کے نزدیک معروف ہیں اور اس کے ذریعے دہریہ کو ان امور میں قدح اور اعتراض پر قدرت دے دی گئی جن کو اللہ کی طرف اس کے رسل لے کر آئے ہیں پس یہ گروہ دین کے تقویت اور دین کو مضبوط کرنے پر بھی قائم نہ ہوا اور نہ اس نے دین کے ملحد دشمنوں کا قلع قمع کیا اور یہ وہی ہے جس نے اپنے متبعین پر اس عقیدے کو واجب کر دیا تھا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے کبھی کلام نہیں کیا ہے بلکہ اس کا کلام تو مخلوق ہے ‘‘اسی لیے کہ بے شک یہ قول اپنے صحت کی تقدیر پر باطل کو مستلزم ہے ۔
اور رہی وہ بات جو ابن کلاب اور اس کے متبعین نے کہی ہے یعنی عالم میں سے کسی شے معین کے قدم کا قول خواہ وہ کوئی ایک ہی معنی ہو یا حروف سے عبارت ہو یا حروف و اصوات دونوں سے مرکب ہو یاایسے اصواط جو کہ معین ہیں اور بعض بعض کے ساتھ ازلاً ابداً مقرون اور متصل ہیں تو خلقِ قرآن کے قول کے پیدا ہونے کے بعد یہ محدث اور بدعت پر مشتمل اقوال ہیں اور ااس میں شرعاً اور عقلاً ایسا فساد پایا جاتا ہے جس کا بیان بہت طویل الذیل ہے لیکن اس قول کے قائلین نے ان لوگوں کے قول کے فساد کو واضح کر دیا ہے جنہوں نے یہ کہا ہے کہ وہ مخلوق ہے یعنی جہمیہ میں سے اور معتزلہ میں سے پس ا ن طوائف میں سے ہر گروہ کے کلام میں ایک ایسا کلام پایا جاتا ہے جو دوسرے گروہ کے قول کے فساد پر مشتمل ہوتا ہے کیوں کہ جتنے اقوال حق کے مخالف ہیں وہ سب کے