کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 240
کو مختلف شکلیں دینا ممکن ہوتا ہے بخلاف ان دلائل کے جو کسی مغالطہ پر مشتمل ہوتے ہیں جن کی کسی خاص طریقے سے خاص الفاظ کے ساتھ ترکیب کی گئی ہو پس جب اس اس کے الفاظ کی ترتیب کو تھوڑاتبدیلی کر دیا جائے اور ایک صورت سے دوسری صورت کی طرف منتقل کر دیا جائے تو تو فوراً اس کی خطا ظاہر ہو جاتی ہے پس پہلے کی مثال تومذہبِ صحیح کی ہے جب اسے ایک صورت سے دوسری صورت کی طرف منتقل کر دیا جاتا ہے تو اس کا جوہر اور مادہ متغیر نہیں ہوتا بلکہ یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ سونا ہی ہے اور جس سونے میں ملاوٹ ہوتی ہے بے شک اسے جب ایک صورت سے دوسرے صورت کی طرف تبدیل کیا جاتا ہے تو یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ وہ مغشوش ہے یعنی اس میں ملاوٹ ہے ۔
یہ مذکور دلائل اللہ کے ماسوا تمام اشیاء کے حدوث پر دلالت کرتے ہیں اور اس پربھی کہ اللہ کے ماسوا تمام کے تمام اشیاء حادث ہیں اور وہ عدم کے بعد موجود ہوجاتے ہیں خواہ فعل کے نوع کے دوام کا قول اختیار کیا جائے جیسے ائمہ اہل حدیث اور ائمہ فلاسفہ اس کے قائل ہیں یا یہ قول اختیار نہ کیا جائے اور جس نے یہ قول اختیار نہیں کیا تو اس کے اور اہل ملل کے جماعتوں کے درمیان ایک نزاع اور خصومت ظاہر ہوتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو بچایا ہے جس نے اللہ کے ساتھ اس میں شرک کو ثابت نہیں کیا یا اس کے ہاں یہ ادلہ آپس میں مساوی ہیں اور وہ حیرت ،شک اور اضطراب کے انواع میں مختلف اقسام میں باقی رہتا ہے ،بتحقیق اللہ نے اس سے اس شخص کو عافیت عطا فرمائی ہے جس کو اللہ نے ہدایت دی ہواورسیدھی راہ دکھائی ہو اور اس کے لیے حق کو واضح کر دیا ہو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :
﴿کَانَ النَّاسُ أُمَّۃً وَاحِدَۃً فَبَعَثَ اللّہُ النَّبِیِّیْنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنذِرِیْنَ وَأَنزَلَ مَعَہُمُ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُواْ فِیْہِ وَمَا اخْتَلَفَ فِیْہِ إِلاَّ الَّذِیْنَ أُوتُوہُ مِن بَعْدِ مَا جَاء تْہُمُ الْبَیِّنَاتُ بَغْیْاً بَیْْنَہُمْ فَہَدَی اللّہُ الَّذِیْنَ آمَنُواْ لِمَا اخْتَلَفُواْ فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِہِ وَاللّہُ یَہْدِیْ مَن یَشَاء ُ إِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾[بقرہ ۲۱۳ ]
’’لوگ ایک ہی امت تھے، پھر اللہ نے نبی بھیجے خوشخبری دینے اور ڈرانے والے، اور ان کے ہمراہ حق کے ساتھ کتاب اتاری، تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے جن میں انھوں نے اختلاف کیا تھا اور اس میں اختلاف انھی لوگوں نے کیا جنھیں وہ دی گئی تھی، اس کے بعد کہ ان کے پاس واضح دلیلیں آ چکیں ، آپس کی ضد کی وجہ سے، پھر جو لوگ ایمان لائے اللہ نے انھیں اپنے حکم سے حق میں سے اس بات کی ہدایت دی جس میں انھوں نے اختلاف کیا تھا اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے۔‘‘
پس اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے بارے میں یہ بات ممکن ہے کہ قدم کی صفت میں اس کے ساتھ عالم میں کوئی بھی شے مقارن اور متصل ہو کوئی بھی شے ہو چاہے یہ کہا جائے کہ وہ اپنی مشیت اور قدرت سے تخلیق فرماتے ہیں جیسا