کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 239
گروہ کے حق میں یہ بات کہ وہ مسلمانوں کی جماعتوں میں کسی ایک جماعت کی موافقت کرے یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ دین اسلام ہی سے نکل جائے ۔
اسی طرح اس کے حق میں معقولِ صریح کی مخالفت کرنے سے یہ بہتر ہے کہ وہ معقول ہی سے بالکل نکل جائے اور جو قول شریعت میں فساد پر مشتمل ہو یعنی شرعی اعتبار سے فاسد ہو تو وہ عقلی اعتبار سے بھی فاسد ہوتا ہے۔
اس لیے کہ حق میں تناقض نہیں ہوتا اور رسولوں نے تو حق ہی کی خبر دی ہے اوراللہ نے اپنے بندوں کی حق کی معرفت اور حق کی پہچان پر تخلیق فرمائی ہے اور رسول فطرت کی تکمیل کے لیے بھیجے گئے ہیں نہ کی فطرت کو بدلنے کے لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿سَنُرِیْہِمْ آیَاتِنَا فِیْ الْآفَاقِ وَفِیْ أَنفُسِہِمْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ ﴾(فصلت : ۵۳ )
’’عنقریب ہم انھیں اپنی نشانیاں دنیا کے کناروں میں اور ان کے نفسوں میں دکھلائیں گے، یہاں تک کہ ان کے لیے واضح ہو جائے کہ یقیناً یہی حق ہے۔‘‘
یعنی وہ ان کو دکھائے گا وہ نشانیاں جو آفاق میں پائی جاتی ہیں اور وہ نشانیاں بھی جو ان کی اپنی نفوس میں پائی جاتی ہیں جویہ کو بیان کرتی ہیں کہ وہ قرآن جس کے ذریعے اس نے اپنے بندوں کو خبر دی ہے وہ حق ہے۔‘‘
پس قرآنی دلائل اور مشاہدے کے دلائل دونوں آپس میں مطابق اور موافق ہیں اور شریعت کا حکم جو منقول ہے اور اسی طرح وہ نظر اور غور و فکر جو معقول ہے یہ دونوں ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں نہ کہ تردید ،لیکن وہ اہل کلام جن کی سلف نے اور ائمہ نے مذمت کی ہے جوجہمیہ اور معتزلہ میں سے ہیں اور ان لوگوں میں سے جنہوں نے ان کی اتباع کی ہے یعنی وہ لوگ جو اہل سنت کی طرف منسوب ہیں اورمتاخرین میں سے ہیں انہوں نے اپنے دین کے اصول میں ایک نیا حکم اور دلیل نکالااور انہوں نے اہل ملل کے قول کو ایسی عبارت سے کیا جو کتاب و سنت میں مذکور نہیں اور انہوں نے اس پر ایسے طریقے سے استدلال کیا جس کا قرآن و سنت میں کوئی اصل اور بنیاد نہیں پس وہ قول جس کو انہوں نے اصل اور بنیادبنایا اور اس کو اہل ملل کی طرف منسوب کیا اور اس پر دی جانے والی دلیل دونوں شریعت میں بدعت ہیں ان میں سے کسی کے لیے بھی کتاب و سنت میں سے کوئی اصل اور بنیاد نہیں ملتی باوجود یکہ ان کے اتباع اور پیروکاریہ کہتے ہیں کہ یہی تو مسلمانوں کا اصل دین ہے پس وہ صریح معقول کی مخالفت میں بالکل اُسی طرح ہے جیسے کہ منقول کی مخالفت میں اور ملحد فلاسفہ نے انہوں نے ان کا مقابلہ کیا ہے جو کہ صحیح منقول اور صریح منقول کے بھی زیادہ شدید مخالف ہیں اور یہاں پر جو ہم نے بات ذکر کی ہے وہ ایسی بات ہے جس کے ذریعے اللہ کے ماسوا تمام عالم کا حدوث ظاہر ہوتا ہے اوراللہ کی قدم کے ساتھ عالم میں کسی بھی شے کے قدم کا امتناع معلوم ہوتا ہے ۔ تو یہ ہر تقدیر پرمطلوب کا فائدہ دیتی ہے اور اس کی مختلف عبارات کے ساتھ تعبیر ممکن ہے اور مختلف تراکیب کے ساتھ اس کی تالیف اور ترکیب ممکن ہے اس لیے کہ مادہ جب صحیح مادہ ہو تو اس