کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 238
منقول کے موافق ہے لیکن انھوں نے اُن اہل کلام کوان کے قول کے لوازم سے الزام دیاجنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات کیساتھ اس کے افعال اورصفات کے قیام کی نفی میں ان کی موافقت کی ہے پس اس کے ذریعے اہل کلام کا تناقض ظاہر ہوا جس کے سبب ان کے اوپر ان ملحدین نے زبان درازی کی اور اس کی وجہ سے علمائے مسلمین نے ان کی مذمت کی سلف میں سے اور آئمہ اور ان کے اتباع میں سے اور ان کا کلام ایسا تھا جس کی وجہ سے ان کی مذمت کی سلف نے کیوں کہ اس کے اندر خطا اور وہ گمراہی تھی جس کے ذریعے انہوں نے حق کی مخالفت کی اپنے مسائل اور دلائل میں پس وہ تزبزب کا شکار رہے اور ان کے کلا م میں تناقض رہا اور انہوں نے اس چیز کی تصدیق نہیں کی جس کو اللہ کے رسول اس کے صحیح طریقے پرلے کر آئے ہیں اور نہ وہ ملتِ اسلام کے دشمنوں پر اس حق صریح کے ساتھ غالب آئے جو معقول کے موافق ہے اوراس کا سبب یہ ہوا کہ انہوں نے تعلیمات کو بنظر غور نہیں دیکھا جن کی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے اور اس کا علم حاصل نہیں کیا اور اس پر ایمان نہیں لایا اور نہ وہ عقلِ سلیم کے تقاضوں پر چلے پس وہ نقلی اور عقلی دلائل کی وجہ سے اپنے علم میں نقصان کا شکار رہے اگرچہ ان کو ان دونوں سے بہت بڑا حصہ حاصل ہوا پس وہ اپنے بعض اقوال میں ان کفار کے ساتھ موافق ہوئے؛[فرمان الٰہی ہے] ﴿ وَقَالُوا لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا کُنَّا فِیْ أَصْحَابِ السَّعِیْر﴾[الملک: ۱۰) ’’وہ بولے: اگر ہم سن لیتے ؛ یا سمجھ لیتے تو ہم ہر گز جہنمی نہ ہوتے ‘ۃ۔ انہوں نے اللہ کی صفات اور اس کے افعال میں ایسی تفصیلات بیان کیں جو شریعت کے مخالف اور بدعت تھے اور ہر بدعت ضلالت اور گمراہی ہے اور ہر گمراہی عقل کے بھی مخالف ہے جس طرح کہ وہ شرح کے خلاف ہے اور وہ بات جس پر ہم نے یہاں تنبیہ بیان کی ہے ،اس کے ذریعے عقل صریح کا اس چیز پر دلالت کرنا معلوم ہو جاتا ہے جس کو اللہ کے رسول لے کر آئے اور اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ مسلمانوں کی بہت سے جماعتیں اس کے دلائل اور مسائل میں بہت زیادہ خطا میں پڑ گئے ہیں پس یہ ممکن نہیں کہ اس کے قول کی مطلقاً حمایت کی جائے بلکہ واجب یہ ہے کہ صرف اور صرف حق کی بات کی جائے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿أَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْْہِم مِّیْثَاقُ الْکِتَابِ أَن لاَّ یِقُولُواْ عَلَی اللّہِ إِلاَّ الْحَقَّ ﴾ (اعراف ۱۶۹) ’’ کیا ان پر کتاب کا عہد نہیں لیا گیا کہ اللہ پر حق کے سوا کچھ نہ کہیں گے‘‘؟ جب مقصود حق بات کی حمایت ہے تو ایسی حق بات جس پر سب اہل ملل متفق ہیں یا اس باطل کا رد ہے جس کے باطل ہونے پر سب متفق ہیں تو اس کی حمایت ایسے طریقے سے کی جائے گی جو اس (حق بات کی حمایت )کا فائدہ دے اگر اس کا دلیل وہ اہل قبلہ کی جماعتوں میں سے کسی جماعت کے طریقے پر منطبق نہ ہوتا ہو تو کیسے اس کا اثبات ایک ایسے طریقے پر ممکن ہے جو اس کے اور ایک دوسرے گروہ کے قول سے مرکب ہو اس لیے کہ اس