کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 237
پس اس تقدیر پریہ بات واجب ہے کہ حادثِ معین کا ارادہ مشروط ہو اس کے ارادے کے ساتھ اور اس حادث کے ارادے کے ساتھ جو اس سے پہلے ہے اور یہ بھی واجب ہے کہ فاعل مبدِع ازل سے ان تمام اشیاء کا ارادہ کرنے والا ہے جو حوادث میں سے وجود میں آنے والی ہیں ۔ یہی وہ تقدیر ثانی ہے یعنی کہ وہ اس بات کا ارادہ کرے کہ ایک شے کو دوسری شے کے بعد موجود کرے تو اس کا مراد حادث ہوگا بعد اس کے کہ وہ معدوم تھا اور وہ ذات اکیلے منفرد ہے صفت قدم اور ازلیت کے ساتھ اور اس کے ماسوا جتنے بھی مخلوق ہیں وہ سب حادث ہیں اور عدم کے بعد وجود میں آنے والے ہیں اور اس تقدیر پر توصرف اور صرف حوادث کا دوام اور تسلسل ثابت ہوگا اور یہ وہی تقدیر ہے جس پر ہم نے پہلے کلام کیا ہے اور اس سے یہ بات لازم آتی ہے کہ فاعل کے ذات کے ساتھ وہ شے قائم ہو جس کا وہ ارادہ کرتا ہے ااور اس پر وہ قادر ہے اور یہی آئمہ محدثین کا قول ہے اور اہل کلام اور فلاسفہ میں سے بہت سے لوگوں لوگوں کا قول ہے اور متقدمین و متاخرین میں سے ان کے کبار کا قول ہے۔ پس یہ بات واضح ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ کے ماسوا تمام کے تمام مخلوقات کے حدوث کا قول واجب اور ضروری ہے خواہ ان کو جسم کہا جائے یاعقل کہا جائے یا نفس کہا جائے (یا کوئی اور تعبیر اختیار کی جائے )اور یہ بات ممتنع ہے کہ ان میں سے کوئی شے قدیم بنے خواہ حوادث کے دوام کے ممکن ہونے اور ان میں تسلسل کا قول اختیار کیا جائے یا یہ کہ ان کے لیے کوئی اول نہیں یااس کے امتناع کا قول اختیار کیا جائے اور خواہ یہ کہا جائے کہ حادث کے لیے سببِ حادث کا ہونا ضروری ہے یا یہ کہ یہ امرممتنع ہے اور یہ کہ عالم کے قدم کے قائلین جیسے کہ افلاک اور عقول اور نفوس ہیں ،اس صریح عقل کی وجہ سے اس کا یہ قول باطل ہے جس نے کبھی کسی بھی تقدیر پرجھوٹ نہیں بولا اور یہی تو مطلوب ہے۔ استطراد : اللہ تعالیٰ کے افعال اور اس کے کلام کے حدوث اور قدم کے بارے میں مختلف فکر کی جماعتوں کے آئمہ کے درمیان اختلاف واقع ہوا ہے اور اس سے متعلق تفصیلی کلام کو یہاں اس مقام کے علاوہ ایک اور مقام پر ذکر کیا گیا ہے اس لیے کہ یہ اصل یہ وہی اصل ہے جس میں فلسفہ ،کلام اور حدیث کے آئمہ کے درمیان تصادم اور ٹکراو واقع ہوا اور وہ اللہ کے افعال ،کلام کے قدم اور حدوث کے بارے میں کلام ہے اور اس کے ذیل میں عالم کے حدوث کے بارے میں کلام اور اللہ کے کلام اور اس کے افعال کے بارے میں کلام بھی داخل ہوتا ہے اور ان دونوں امور کے بارے میں کلام کرنا عقلوں کے حیرت کا مقام ہے پس فلاسفہ جو کہ عالم کے قدیم ہونے کے قائل ہیں وہ اُس حق موقف سے انتہائی دور ہیں جس کو اللہ تعالیٰ کے رسول لے کے آئے جو کہ صریح معقول اور صحیح