کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 236
بات کو ثابت کرتی ہے کہ ہر مفعول اور ہر وہ چیز جس کے فعل کا ارادہ کیا جائے وہ حادث ہی ہوتا ہے بعد اس کے کہ وہ موجود نہیں تھا اور اس کے ذریعے یہ بات بھی معلوم ہو گئی کہ یہ امرممتنع ہے کہ وہاں پر ممکنات میں سے کسی شے کو وجود دینے کاایک ایسا ارادہ ازلیہ موجودہو جس کے ساتھ اس کی مراد مقارن ہو ازلا اور ابداً۔ خواہ ان تمام افعال کو وہ عام ہو جو ان سے صادر ہوں یا بعض مفعولات کے ساتھ خاص ہو ۔ اس(ارادے ) کا تمام مفعولات کو عام ہونے کا امتناع تو ظاہر ہے اور عقلاء کے درمیان متفق علیہ ہے اس لیے کہ یہ اس بات کو مستلزم ہے کہ ہر وہ فعل جو اس سے صادر ہو بالواسطہ یا بلا واسطہ ،قدیمِ ازلی ہو پس یہ بات لازم آئے گی کہ عالم میں کوئی بھی شے حادث نہ ہو اور یہ تواس مشاہدے کے خلاف ہو جو مخلوق کرتی ہے یعنی تمام آسمانوں اور زمینوں کا حدوث ،ان کے درمیان مخلوقات کا حدوث ،اس طرح اجسام اور اعراض کی حرکات جیسے شمس و قمر کی حرکت اور اسی طرح ستاروں ،ہواؤں ،بادل اور بارش کی حرکت اور اس طرح جو پیدا ہوتا ہے مخلوقات میں سے نباتات ،حیوانات اور زمین کے اندر موجود معادن ۔ رہا کسی متعین کا ارادہ کرنا تو اس میں وہی کلام ہے جو ماقبل میں گزرا اور اس صورت میں یا تو یہ کہا جائے گا کہ اس ذات کے لیے صرف اور صرف وہی ایک ارادہ ازلیہ ثابت ہے یا یہ کہا جائے گا کہ اس ذات کے لیے ایک ایسا ارادہ ثابت ہے جوشیئا فشیئا وجود میں آتا ہے ۔ اگر پہلا معنی مرادلیا جائے تو اس تقدیر پرلازم آئیگا کہ ایک مریدِ ازلی ذات ازل میں اپنے مرادِ ازلی کے ساتھ مقارن ہے پس وہ حوادث سے کسی بھی شی کا کسی حال میں ارادہ بھی نہیں کریں گے نہ ارادہ قدیمہ نہ ارادہ متجددہ (یعنی دھیرے دھیرے وجود میں آنے والا)اس لیے کہ اگر یہ بات فرض کر لی جائے کہ ارادہ کرنے والی ازلی ذات کی مراد اس کے ارادے کیساتھ مقارن ہوتی ہے تو یہ حادث بھی حادث ہی ہوگا۔ اس کا حدوث دو حال سے خالی نہیں ہوگا یا تو ارادہ ازلیہ کے ساتھ ہوگا پس ارادہ کرنے والی ذات اپنے مراد کے ساتھ مقارن نہیں ہوگی یا حادث ہوگا کسی ایسے ارادے کے ساتھ کہ وہ بھی حادث ہو اور اس کے ساتھ مقارن ہو اوریہ تو دو وجہ سے باطل ہے : ایک تو اس لئے کہ یہ بات تو پہلے سے فرض کی جا چکی ہے کہ اس ذات کے لیے صر ف اور صرف ایک ہی ارادہ ازلیہ ہے اور دوسرے یہ کہ اس ارادے کا حدوث کسی سببِ حادث کی طرف محتاج ہو۔اور اس سببِ حاد ث میں کلام اسی طرح ہے جو اس کے غیر میں ہے اوریہ بات ممتنع ہے کہ وہ ارادہ ازلیہ کے ذریعے حادث ہو جائے جوکہ مستلزم ہے اپنے مراد کی مقارنت اور اتصال کو اور یہ بات بھی ممتنع ہے کہ وہ بغیر کسی ارادے کے حادث ہو جائے بوجہ اس کے کہ حادث کا پیدا ہونا بغیر ارادے کے ممتنع ہے۔